• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آمدنی میں بڑھتی کمی کو پورا کرنے کیلئے حکومت کا متعدد اقدامات پر غور

اسلام آباد (مہتاب حیدر) آمدنی میں بڑھتی کمی کو پورا کرنے کیلئے حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس بڑھانے، موبائل فون کمپنیوں پر ٹیکس عائد کرنے، تنخواہ دار طبقے کو حاصل مراعات میں 50فیصد کمی اور سگریٹ پر ٹیکس میں اضافے سمیت متعدد اقدامات پر غور کر رہی ہے ۔ ایف بی آر کی جانب سے متعارف کرائے گئے ان اقدامات میں ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کو ایک فیصد کرنا بھی شامل ہے، تاہم اس بات کا فیصلہ تاحال نہ ہو سکا کہ آیا یہ اقدامات تحریک انصاف کی حکومت قبول کرے گی کا نہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر اس وقت بیرون ملک کے دورے پر ہیں اور ان کی واپسی پر ہی حکومت آمدن بڑھانے کے اقدامات کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرے گی تاکہ آئندہ کچھ ہفتوں میں آمدنی میں بڑھتی خلیج پوری کی جاسکے۔ لہذا ایک اور منی بجٹ آسکتا ہے جس کا اعلان حکومت آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکج لینے سے قبل کر سکتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ہفتے کے روز باقی ماندہ وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جس کے دوران ایف بی آر کی کارکردگی کا تذکرہ ہوا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ یا اس کے بغیر حکومت بین الاقوامی قرض دینے والے اداروں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ معاشی مشکلات حل کرنے میں سنجیدہ ہے۔ اگرچہ حکومت تسلیم نہیں کرتی تاہم اسلام آباد کو آئی ایم ایف سے قرض کے لئے باقاعدہ درخواست دائر کرنے سے قبل مالیاتی محاذ پر کچھ اقدامات لینا ہوں گے۔ اعلیٰ سطحی ذرائع نے دی نیوز کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ آئی ایم ایف مشن نے حکومت کے سامنے موجودہ مالی سال میں بڑھتے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے اضافی اقدامات کا معاملہ اٹھایا تھا۔ ایف بی آر نے وزیراعظم عمران خان کے سامنے موقف اختیا رکیا کہ گزشتہ پانچ ماہ میں پیش آنیوالی 100ارب روپے کی کمی میں سے 80ارب روپے کی کمی کی وجہ حکومتی پالیسی ہے کیونکہ صرف پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کم کرنے کی وجہ سے آمدنی میں 35ارب روپے کی کمی واقع ہو ئی تھی۔ آمدنی میں کمی کی دوسری وجہ سپریم کورٹ کے حکم پر موبائل فون صارفین پر سے ود ہولڈنگ ٹیکس کی معطلی ہے جس کا نتیجہ ماہانہ 4ارب روپے کی کمی کی صورت میں نکل رہا ہے۔ اس وجہ سے ایف بی آر کو اب تک 16ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ اب ایف بی آر کو اس نقصان کو پورا کرنے کیلئے اقدامات تلاش کرنا ہوں گے۔ ایف بی آر کو آمدنی میں کمی کا ایک اور وجہ سے سامنا کرنا پڑا اور وہ ہے تنخواہ دار طبقے کی قابل ٹیکس حد کو 12لاکھ تک بڑھانا جس کو ضمنی بجٹ میں کچھ کم کیا گیا تھا تاہم ایف بی آر فوری طور پر اس سہولت کو 50فیصد تک کم کرنے کی خواہمشمند ہے۔ ذریعے نے دی نیوز کو بتایا کہ حکومت تنخواہ دار طبقے کیلئے دستیاب اس سہولت کو 50فیصد تک کم کرنے پر غور کر رہی ہےجس کے نتیجے میں ایف بی آر کو اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ ایف بی آر سگریٹ پر تیسرے درجے کے ٹیکس کے نفاذ پر بھی نظر ثانی کرنا چاہتی ہے کیونکہ ادارے کے بقول تین سال پہلے تک اس صنعت سے 114ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا جاتا تھاجو کم ہو گیا، بعد ازاں ایف بی آر نے تیسرے درجے کا ٹیکس نظام متعارف کرایا تاہم ٹیکس آمدنی 100ارب کی سطح تک نہ پہنچ سکی۔ لہذا ایف بی آر نے فیصلہ کیا ہے کہ اس پالیسی پر سنجیدگی سے نظر ثانی کی جائے اور تمباکو کی صنعت پر ٹیکس بڑھایا جائے تاکہ 114ارب سالانہ کے ہدف کے قریب پہنچا جاسکے۔ درآمدات میں کمی کے حوالے سے سرکاری ذریعے نے بتایا کہ ایف بی آر نے ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھا دی ہے تاکہ درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جاسکےاور اب یہ ڈیوٹی اس سطح پر پہنچ چکی ہے جس میں اضافہ ممکن نہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ضمنی بجٹ پیش کئے جانے کے موقع پر ایف بی آر نے ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی میں ایک فیصد اضافے کی تجویز دی تھی تاکہ 75سے 80ارب روپے اضافی طور پر کمائے جاسکیں، تاہم حکومت نے اس موقع پر اس تجویز پر عمل درآمد نہیں کیا تھا۔ ذریعے نے بتایا کہ ایف بی آر نے ایک مرتبہ پھر اس تجویز کو پیش کیا ہے تاہم یہ معلوم نہیں کہ حکومت اسے گرین سگنل دے کر قبول کرے گی یا رد کر دے گی۔ ایف بی آر کی آمدنی میں ابتدائی پانچ ماہ میں 5.7فیصد اضافہ ہوا تھا اور ادارے کا ہدف ہے کہ رواں مالیاتی سال میں 4398ارب روپے جمع کئے جاسکیں۔ باقی ماندہ مہینوں میں ایف بی آر کو مزید آمدنی جمع کرنا ہوگی اور بغیر اضافی اقدامات کے بظاہر یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ ادارہ گزشتہ مالی سال جتنی آمدنی اس سال جمع کرپائے۔

تازہ ترین