کوئٹہ(صباح نیوز)بلوچستان حکومت کی جانب سے تعلیمی ایمرجنسی کے اعلان کے متعدد دعووں کے باوجود حکومت کے زیر نگرانی چلنے والے ایک ہزار 800 پرائمری، مڈل اور ہائی اسکولوں کے غیر فعال ہونے کا انکشاف ہوا ہے ،نجی ٹی وی کے مطابق محکمہ تعلیم کی حاصل ہونے والی دستاویز میں انکشاف ہوا کہ اس وقت صوبے میں 2ہزار 200اسکولوں کی چھتیں ہی نہیں ہیں، جبکہ 5 ہزار پرائمری اسکولز ایسے ہیں جہاں صرف ایک ٹیچر موجود ہے صوبے میں پرائمری، مڈل اور ہائی اسکولوں کی کل تعداد 13 ہزار سے زائد ہے، جبکہ صوبائی حکومت ہر بچے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے پہلے ہی ایمرجنسی اور آرٹیکل 25 ʼاےʼ کے اطلاق کا اعلان کرچکی ہے تاہم اس کے باوجود بچوں کے بڑی تعداد اسکولوں سے باہر ہے سیکرٹری تعلیم بلوچستان طیب لہری نے بتایا کہ اس وقت 10 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔صوبائی حکومت نے تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مستقل طور پر غیر حاضر رہنے والے اور گھوسٹ اساتذہ کے خلاف کریک ڈان کا آغاز کردیا ہے طیب لہڑی نے بتایا کہ ʼہم 179 اساتذہ کو معطل کرچکے ہیں جبکہ 97 کے خلاف انکوائریوں کا حکم اور 82 کو شوکاز نوٹسز جاری کیے جاچکے ہیں۔دستاویز سے مزید انکشاف ہوا کہ صوبائی محکمہ تعلیم گزشتہ تین سال کے دوران مستقل غیر حاضر رہنے والے اساتذہ کی تنخواہوں سے 14 کروڑ 10 لاکھ روپے سے زائد کی کٹوتی بھی کر چکا ہے بلوچستان میں تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے صوبائی کابینہ پہلے ہی ʼبلوچستان ایجوکیشن ایسِنشل سروسز ایکٹ 2018ʼ منظور کر چکی ہے۔