پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گرد حملے کو 4 سال بیت گئے، سفاک حملہ آوروں نے اسکول پرنسپل طاہرہ قاضی سمیت 150 کے قریب طلبہ اور اساتذہ کو شہید کیا تھا ۔
اس سانحہ نے پوری قوم کو دہشت گردی کا ناسور ختم کرنے کے لیے متحد کیا اور سیکیورٹی اداروں نے کامیاب کارروائیوں میں وطن کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر 2014 وہ بدقسمت دن ہے جس نے ہر محب وطن پاکستانی کو دلگیر و اشکبار کیا، یہ وہ جانگداز دن تھا جس کا سورج حسین تمناؤں اور دلفریب ارمانوں کے سنگ طوع ہوا، مگر غروب 132 معصوم و بے قصور بچوں کے لہو کے ساتھ ہوا۔
صبح دس سے ساڑھے دس بجے کے درمیان 6 دہشت گرد اسکول کے قریب پہنچے اور اپنی گاڑی کو نذر آتش کیا۔ اس کے بعد سیڑھی لگاکر اسکول کے عقبی حصہ میں داخل ہوئے اور معصوم طالب علموں اور بےگناہ اساتذہ پر اندھادھند فائرنگ کی۔
سفاک دہشت گرد ایف سی کی وردیاں پہن کر اسکول میں داخل ہوئے، انسانیت سے سارے ناطے توڑ کر درندگی کو گلے لگانے والوں نے اسکول کے مین ہال اور دیگر کلاس رومز میں گھس کو ان کلیوں کو بے دردی سے مسل ڈالا جو ابھی کھل کر کھل بھی نہ پائی تھیں۔
واقعہ میں ا سکول پرنسپل طاہرہ قاضی نے رسم وفا کچھ ادا سے نبھائی کہ دیگر کئی اساتذہ کے ساتھ شہید ہوئیں اور ہمیشہ کیلئے امر ہوگئی۔ اس حملے میں 2 دہشت گردوں نے خود کو دھماکے سے اڑایا۔
اس قومی سانحہ کے بعد پاکستان کی موجودہ حکمراں جماعت تحریک انصاف نے اسلام کے ڈی چوک میں 126 روز سے جاری دھرنا ختم کر دیا۔
اے پی ایس پر لگے زخم نے حکومت وقت کو نیشنل ایکشن پلان ترتب دینے اور کاؤنٹر ٹریرازم اتھارٹی کو از سر نو فعال کرنے جیسے اقدامات اٹھانے پہ مجبور کیا۔
انہی اقدامات کے نتیجے میں دہشت گردوں کو نشان عبرت بنانے کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا، بلاشعبہ اے پی ایس کے ایک 132 بچوں سمیت ایک 150 فرزندان وطن نے اپنے لہو سے وہ شمع روشن کی جس کی لو آج بھی تازہ و غیر متزلزل ہے۔