• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میر نے کہا تھا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
ہمارے ہاں کی جمہوریت بھی اک کارگہِ شیشہ گری ہی ہے جہاں لازم ہے کہ سانس بھی آہستگی ہی سے لی جائے۔ اس لئے نہیں کہ جمہوریتوں کی بادِ بہاری نے کشتِ وطن کو نہال کر دیا اور پاکستانی عوام کی جھولیاں ثمراتِ شیریں سے بھر گئیں۔ اس لئے کہ پاکستان کو ایک مہذب ریاست کے طور پر قائم رکھنے، مختلف وفاقی اکائیوں کے ربط و اتحاد اور قومی سلامتی کے لئے ہمارے پاس کوئی اور متبادل راستہ ہے ہی نہیں۔ جمہوریت، ہمارے لئے مجبوری کی حدوں کو چھوتی ایک ضرورت ہے۔ بجا کہ غربت، جہالت اور سماجی عدم تحفظ کے شکار عوام حقیقی قیادت کے انتخاب کا سلیقہ نہیں رکھتے، بجا کہ برادری اور گروہ بندی کی زنجیروں میں جکڑے عوام کو اچھے نمائندوں کے چناؤ کا ہنر نہیں آتا، بجا کہ نظام سڑا بُسا ہے اور تبدیلی ناگزیر ہے لیکن ہمیں آگے بڑھنا ہے تو انہی پتھروں پہ سفر جاری رکھنا ہوگا۔موجودہ اسمبلی16مارچ 2013ء کو اپنی میعاد مکمل کر رہی ہے۔ حکومت اور پارلیمینٹ کی کارکردگی سے قطع نظر یہ ایک اچھی پیشرفت ہے کہ منتخب پارلیمان اور منتخب حکومتیں اپنی دستوری عمر طبعی پا رہی ہیں۔ اصلاحِ احوال کا عمل اسی طرح بتدریج اور آہستگی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ عوام، اپوزیشن، میڈیا، عدلیہ اور فوج میں سے شاید ہی کوئی اس داغ داغ حکومت سے مطمئن ہو لیکن لوگ سڑکوں پہ نہیں آئے کہ کوئی مسیحا ہمیں نجات دلائے، اپوزیشن نے طعنے سن لئے لیکن کسی بھی غیر آئینی اقدام کے سامنے دیوار بنی کھڑی رہی، عدلیہ نے حکومت کی غلط کاریوں کا کڑا محاسبہ کیا لیکن ماورائے آئین تبدیلی کے خلاف فصیلِ آہن و فولاد بن گئی۔ جنرل کیانی نے بڑے تحمل سے سب کچھ سنا لیکن مشتعل نہ ہوئے اور جمہوری عمل کے تسلسل کو یقینی بنایا۔ انفرادی طور پر سب کچھ تلپٹ کردینے کے آرزومندوں کے باوجود میڈیا نے عمومی طور پر اپنا وزن جمہوریت کے پلڑے میں ڈالے رکھا اور کسی نجات دہندہ کی آرزو کو سیراب نہ کیا۔ یہ سب کچھ سرے سے نظام میں غیر محسوس طور پر آنے والی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ صدر زرداری بے شک پانچ سالہ مدت کی تکمیل کو اپنی مفاہمانہ پالیسی اور حکمت کاری سے تعبیر کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ موسموں کو مرضی کا رنگ روپ دینے والی ہواؤں اور موقع شناس سیاست دانوں کے مابین روایتی گٹھ جوڑ قائم ہو جاتا تو ہوا کے دوش پہ رکھے چراغ جیسی اس حکومت کے لئے ایک پھونک ہی کافی تھی۔
2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی نے بھی پانچ سال پورے کئے تھے اور حکومت نے بھی۔ لیکن وہ جمہوریت ایک وردی پوش آمر کے حرم کی کنیز کے سوا کچھ نہ تھی۔ آمریت کے ”ہیٹ“ سے پی سی او جیسے کبوتر برآمد کرنے والے جادوگروں کے کمالات، تاریخ کے کوڑا دان میں پھینک دیئے جاتے ہیں۔ سو موجودہ پارلیمینٹ اور حکومت کو بجاطور پر یہ اعزاز مل رہا ہے کہ انہوں نے آئینی عمر پائی۔ اب اگلا مرحلہ یہ ہے کہ نئے دستوری ضابطوں کے تحت، آزادانہ و منصفانہ انتخابات منعقد ہو جائیں اور نئے منتخب نمائندوں کو انتقال اقتدار کا مرحلہ پُرامن اور احسن انداز میں مکمل کرلیا جائے۔
ایک معتبر ذریعے کی سرگوشی پر یقین کرلیا جائے تو 16فروری کو اسمبلی اور حکومت رخصت ہو رہے ہیں۔ آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ اس صورت میں نگراں حکومت کو ساٹھ دنوں کے اندر اندر انتخابات کرانا ہونگے۔ غالباً صدر زرداری نہیں چاہتے کہ نگرانوں کو زیادہ عرصے کیلئے ”لذتِ نگرانی“ سے لطف اندوز ہونے کاموقع دیا جائے۔ وہ انتخابی مہم کو بھی مختصر رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ بھی خواہش ہوگی کہ مئی جون میں لوڈشیڈنگ کے پھن پھیلانے سے پہلے پہلے انتخابات ہو جائیں۔ ساڑھے تین ارب ڈالر کی ادائیگی کی بات میں پہلے ہی کر چکا ہوں۔ سوقرائن یہی ہیں کہ اپریل انتخابات کا مہینہ ہوگا۔ جسٹس ناصر اسلم زاہد اور جسٹس شاکر اللہ جان میں سے کسی ایک پر نگران وزیراعظم کیلئے اتفاق رائے کے امکانات بھی بڑھ رہے ہیں۔ آئینی طور پر یہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کا استحقاق ہے۔ وہ متفق نہ ہوں تو ایک پارلیمانی کمیٹی، وہاں بھی اتفاق رائے نہ ہو تو الیکشن کمیشن۔ حکومت نے اپنے اتحادیوں سے بات کرلی ہے اور چوہدری نثار علی خان نے بھی اپنے حلیفوں سمیت پارلیمینٹ سے باہر کی جماعتوں کو اعتماد میں لے لیا ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی اور الیکشن کمیشن تک نہ پہنچ پائے گا اور بات پہلے مرحلے میں ہی طے ہو جائیگی۔ فخرو بھائی پر بھی اسی طرح اتفاق رائے ہوگیا تھا۔
جمہوریت کی کارگہِ شیشہ گری نہایت نازک مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ دہشت گردی اور اس سے منسلک عوامل ہماری گرفت میں نہیں لیکن ہمیں یہ عزم کرنا ہوگا کہ کسی جمہوریت کش حملے کو راستہ نہ ملے۔ کچھ دیدہ و نادیدہ قوتیں بہرحال موجود ہیں جو پولیو کے خلاف مہم ہی کی طرح جمہوری انتخابات کو نشانہ بنا کر آمریت یا کسی غیر منتخب بندوبست کے ”پولیو“ کا راستہ ہموار کر رہی ہیں، ان قوتوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ ان کی کارگہِ فکر بڑے خوبصورت اور پرکشش دلائل تراشنے کی صلاحیت رکھتی ہے ان میں سے اکثر وہ ہیں جو بارہا قسمت آزما چکے ہیں لیکن حدنظر تک پھیلی عوامی مقبولیت کی کھیتوں سے بالشت بھر ہریالی بھی نہ پھوٹی۔ کچھ وہ بھی ہیں جن کی خواب خرامی کا خمار ٹوٹنے لگا ہے اور وہ ابھی سے انتخابی عمل کو مشکوک و نامعتبر بنانے کے درپے ہیں۔ میڈیا کو اس نازک مرحلے میں توانا کردار ادا کرنا ہوگا کہ اس کا آشیانہ بہرحال شجرِ جمہوریت ہی کی کسی شاخ پر ٹھہر سکتا ہے۔ آمریت کا پہلا تیر میڈیا ہی کے سینے میں پیوست ہوگا۔سیاسی قوتوں کو شعوری کوشش کرنا ہوگی کہ وہ کسی طرح کا تلاطم پیدا نہ ہونے دیں۔ ایسے اقدامات اور بیانات سے گریز کریں جن سے کسی انہونی کے سر اٹھانے کا خدشہ ہو۔ گزشتہ روز ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا بیان پڑھ کر خوشی ہوئی۔ انہوں نے اپنے مداحوں اور کارکنوں کو تلقین کی کہ احتجاجی مظاہروں کے تمام پروگرام منسوخ کردیئے جائیں۔ انہوں نے ڈاکٹر فاروق ستار کے اس بیان کی نفی کردی کہ 7جنوری کو لاکھوں کروڑوں افراد سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔ واضح کیا کہ اس روز صرف ان کے وکلاء ہی عدالت میں پیش ہوں گے۔ یہ مثبت رویہ ہے، عدالت دیکھے گی کہ اگر کسی شخص کو ذاتی طور پر پیش ہونے کے لئے کہتی ہے اور وہ پیش نہیں ہوتا یا کوئی عذر پیش کرتا ہے تو قانون کیا کہتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ سب کچھ عدالت کے کمرے میں ہو اور سڑکیں آباد نہ کی جائیں۔
طے جانیئے کہ کسی بھی دلیل کسی بھی جواز کی بنیاد پر انتخابات کی بساط لپیٹ دی گئی تو بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔ سیاسی جماعتوں کو کم از کم اس نکتے پر ضرور اتفاق رائے کرلینا چاہئے کہ انتخابات کا التوا کسی طور قابل قبول نہ ہوگا۔ انتخابات کو قابل اعتبار بنانے کی حتی المقدور کوشش بھی ہونی چاہئے۔ جمہوریت کی اس کارگہِ شیشہ گری میں لازم ہے کہ اس مرحلے پر سانس بھی آہستہ لی جائے۔ کہیں وہ نہ ہو کہ ”یک لحظہ غافل گشتم و صدسالہ راہم دورشد“ ایک لمحے کی غفلت ہوئی اور سیکڑوں سال کی مسافت گلے پڑگئی۔
تازہ ترین