• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں تعلیم عام کرنے میں ہاتھ بٹانے کا مشن نجی اداروں کے حوالے کرنے کا ایک مقصد یہ تھاکہ اس سے کوئی بچہ داخلے سے محروم نہیں رہے گا اور ملازمتوں کی مواقع پیدا ہونے سے نوجوانوں میں بے روزگاری کم کرنے میں مدد مل سکے گی۔ ابتدائی دہائی میں یہ پالیسی بڑی حد تک کامیاب رہی لیکن رفتہ رفتہ اسے نظر انداز کئے جانے سے تعلیم کو تجارت کا سب سے منافع بخش ذریعہ بنا لیا گیا۔ آج آبادی کا چالیس فیصد طبقہ یا تو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے قاصر ہے یا فیسوں میں بے لگام اضافے سے ان کی استطاعت جواب دے گئی ہے اور اچھے خاصے اسکول جاتے بچے گھر بٹھائے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بجا طور پر معاملے کا نوٹس لیا اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد نجی اسکولوں کی فیسیں20فیصد کم کرنے کا باعث اطمینان فیصلہ جاری کرتے ہوئے فیسوں میں سالانہ اضافے کی حد5فیصد کرنے کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی واضح کیا ہے کہ نہ تو کسی طالب علم کے نکالے جانے کی اجازت دی جائے گی نہ اسکول بند کرنے کی۔ تاہم فیسوں کو کنٹرول کرنے کا سلسلہ محض اسکولوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے کالجوں اور یونیورسٹیوں تک بڑھایا جانا چاہیے ۔ پرائیویٹ جامعات فیسوں پر عائد کردہ ود ہولڈنگ ٹیکس والدین سے وصول کر رہی ہیں جو پہلے ہی برس ہا برس سے بھاری بھرکم فیسیں ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور تعلیم کی تکمیل کے اس مرحلے میں اولاد کو تعلیم سے کنارہ کشی پر مجبور بھی نہیں کر سکتے۔ مزید برآں ا سکول و کالج کھولنے کیلئے میرٹ پر تجربہ کار اساتذہ کی حوصلہ افزائی کو اگر تعلیمی پالیسی کا حصہ بنایا جائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے ملک میں انقلابی تعلیمی نظام کے جامع منصوبے کی بھی منظوری دیدی ہے جس میں یکساں نصاب، لٹریسی ایمرجنسی، اسکول میں بچوں کی انرولمنٹ، قرآن اسکیم اور اساتذہ کا میرٹ پر چناؤ کے نکات شامل ہیں۔ بلاشبہ پرائمری سے ہائیر ایجوکیشن تک ایک جامع اور ٹھوس پالیسی وقت کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین