• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوید قمر اڈیالہ جیل کی بیرکوں میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔مگر ستائیس دسمبر سے پانچ جنوری تک پیپلز پارٹی کا کوئی لیڈر نیب کے حوالات میں جمع ہوتا نہیں نظر آرہا۔پی ٹی آئی کے کسی رہنما کی گرفتاری کے امکان زیادہ ہیں۔چوہدری پرویز الٰہی کی خیر ہو۔ان کا تعلق پی ٹی آئی سے تونہیں مگر اتحادی تو ہیں۔بہرحال قید تو قید ہوتی ہے چاہے اپنے گھر میں ہی کیوں نہ ہو سعد رفیق سے ملاقات ہوئی تو اُس نے کہا تم میری گفتگو سنے بغیر نہیں جاسکتے۔میں بولا۔ہم ڈی جی نیب لاہور سے وعدہ کر کے آئے ہیں کہ کسی قیدی سے گفتگو نہیں کریں گے۔انہوں نے تیز نظروں سے مظہر برلاس کی طرف دیکھا اور غصے سے کہا ’’تو پھر آئے کیوں ہو‘‘۔ازراہ مروت ہم سب خاموش رہے۔دل نے چاہا کہ انہیں کہوں جن عقوبت خانوں کا تذکرہ ورد زبان بنا لیا گیا ہے ہم تو انہیں دیکھنے آئے ہیں۔خدا گواہ ہے مجھے نیب کی وہ جیل بالکل اچھی نہیں لگی۔وہاں بھی مجھے دو پاکستان نظرآئے۔ عمران خان نے کہا تھا۔ ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘۔ ہم سب اس دن کےانتظار میں ہیں جب غریب اور امیر کا ایک پاکستان ہوگا۔نیب کی حوالات امیروں کی حوالات تھی۔غریبوں کی حوالات سے اس کا موازنہ ہو ہی نہیں سکتا۔جدید ترین ہیٹر لگے ہوئے تھے۔ہر کمرے میں کارپٹ بچھا ہوا تھا۔میٹریس پر چادریں بچھی ہوئی تھیں۔قیمتی دبیز کمبل رکھے ہوئے تھے۔علیحدہ باتھ روم موجود تھے۔ساتھ ہی ایک کمرے میں فل فلیج ڈسپنسری تھی۔جہاں ہر وقت دو ڈاکٹر ڈیوٹی پرہوتے ہیں۔روزانہ ایک دو بار بلڈپریشر وغیرہ چیک کرتے ہیں۔اس بات کا پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے کہ کہیں کوئی بیمار نہ ہو جائے۔اچھا اور معیاری کھانا قیدیوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ہر کمرے میں قرآن حکیم کی تفسیر موجود تھی۔باجماعت نماز پڑھنے کے لیے علیحدہ ایک جگہ مختص تھی۔تمام قیدی وقت پر ناشتہ کرتے ہیں،وقت کے مطابق دن میں کئی مرتبہ چہل قدمی کرتے ہیں۔ان سے انٹرویوز کے لیے بالکل ساتھ ہی کمرے تھے جہاں بہترین فرنیچر موجود تھا جن میں ریکارڈنگ کی جدید ترین سہولتیں لگائی گئی تھیں۔رائے اعجاز سے بات ہوئی تو وہ قیدی نیب کی تعریف میں رطب اللسان ہوگیا۔اس نے کہا میں خود ایک پولیس آفیسر ہوں،مگر ایسے حوالات اور اتنے اعلیٰ انٹروگیشن روم میں نے پاکستان بھر میں کہیں نہیں دیکھے۔صاحبان ِنیب کا حسن سلوک بھی حیرت انگیز ہے۔یہاں پر آج تک کسی بھی ملزم کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔بڑے ہی سائنٹیفک انداز میں تفتیش ہوتی ہے۔نیب کی حوالات کے متعلق اور بھی بہت سی باتیں کی جاسکتی ہیں۔مگر میرا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ یا تو سارے پاکستان کی جیلیں اور حوالات ایسے ہی بنا دئیے جائیں،یا پھر جو سہولتیں نیب اپنے ملزموں کو دے رہی ہے وہ واپس لے لی جائیں۔

نون لیگ کو نیب سے بہت زیادہ تکلیف ہوئی۔ نون لیگ کے بہت سارے لوگ نیب نے گرفتار کیے۔نیب سے پیپلزپارٹی بھی ناخوش ہے۔ عمران خان کو بھی نیب کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔اس دن عمران خان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ نیب کا سکسیس ریٹ سات فیصد ہے۔یہ غلط بات جن لوگوں نے عمران خان تک پہنچائی ہے وہ یقیناً نون لیگ یا پیپلز پارٹی سے کوئی خفیہ روابط رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت نیب کو ختم کردے۔اس کے ثبوت کے لیے یہی بات ہی کافی ہے کہ نیب کا سکسیس ریٹ ستر فیصد ہے۔ستر کو سات میں بدلنے والے اہل عقل و بینش کا ایجنڈا یقیناََ کچھ تو ہوگاکہ عمران خان کو غلط خبر یں پہنچا رہے ہیں۔ مگر ان غلط خبریں پہنچانے والوں کا بھی احتساب ہونے والا ہے۔اب کی بارحساب کتاب سے کوئی نہیں بچ پائے گا۔کچھ واقفان حال جانتے ہیں کہ کچھ گرفتاریاں اگلے سال ہوں گی۔اگلے سال کا تذکرہ سن کر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔کیونکہ اگلا سال چند دنوں بعد شروع ہونے والا ہے۔ہر برس کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔مثلاً اس سال کے آخر میں یعنی ستائیس دسمبر کو بے نظیر بھٹو شہید کی برسی ہے۔اس برسی سے پہلے پیپلز پارٹی کے کسی رکن کو نہیں چھیڑا جا سکتا۔ورنہ شورو غوغا ہوگا۔اگلے سال کے شروع میں یعنی پانچ جنوری کو ذوالفقار علی بھٹو شہید کی سالگرہ ہے۔سالگرہ کی خوشیوں کے رنگ میں بھنگ نہیں ڈالا جاسکتا۔ لہٰذا پانچ جنوری تک تو پیپلز پارٹی کی اہم شخصیات کو بے فکر ہو جانا چاہیے۔سنا ہے پیپلز پارٹی زرداری گروپ کی طرف سے دو ارب ڈالر کی مبینہ پیش کش کی گئی ہے مگرفیصلہ کن قوتیں چار ارب ڈالر سے کم پر سودےبازی کےلئے تیار نہیں۔بہر حال موسم بہار آنے والا ہے۔شاخوں پر پھول کھلنے والے ہیں۔مگر گلزار بخاری کا یہ شعر بھی ذہن میں بار بار لہرا جاتا ہے

لوگ پرواز کی رُت کہتے ہیں جس کو گلزارؔ

وہی موسم ہے پرندوں کی گرفتاری کا

تازہ ترین