• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیرس ماحولیاتی معاہدے پر سال 2020 میں عمل شروع کر دیا جائے گا

پولینڈ (این این آئی)پولینڈ کے شہر کاٹیویٹسا میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں ممبران نے معاہدے کی منظوری دے دی ہے جس کے نتیجے میں 2015 کے پیرس ماحولیاتی معاہدے پر سال 2020 میں عمل شروع کر دیا جائے گا۔کاربن مارکیٹ کے بارے میں آخری لمحات میں ہونے والی بحث سے ایک موقع پر لگ رہا تھا کہ معاہدے کی منظوری نہیں ہوگی اور اس حوالے سے ہونے والی میٹنگ ایک دن کے لیے موخر بھی ہوئی تھی۔ماہرین کا خیال ہے کہ اس معاہدے کے قوانین کی مدد سے تمام ممالک کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے اپنے وعدے پورے کریں گے۔کاٹیویٹسا معاہدے کا اصل مقصد تحت پیرس ماحولیاتی معاہدے کے اہداف کو حاصل کرنا ہے جس کے تحت عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری سینٹی گریڈ سے کم پر رکھنا ہے۔سی او پی 24 کے نام سے منعقد ہونے والے اس اجلاس کے چئیرمین میخال کرٹائکا نے کہا کہ پیرس معاہدے پر عمل درآمد کے پروگرام کو پایہ تکمیل پر لانا ہماری بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ بہت طویل سفر تھا اور ہم نے اپنی پوری کوشش کی ہے کہ کسی کو پیچھے نہ چھوڑیں۔اس معاہدے کے تحت غریب ممالک کے لیے قوانین میں نرمی ہوگی اور ترقی پذیر ممالک نے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے نقصانات کے اذالے کے لیے تلافی کا مطالبہ کیا تھا۔لیکن امیر ممالک اس بات سے انکاری تھے کہ انھیں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والے نقصان کے اذالے کے لیے معاوضہ دینا پڑے۔گذشتہ ہفتے ماہرین کا اس وقت دھچکہ لگا جب امریکہ، روس اور کویت نے اقوام متحدہ کی جانب سے اْس رپورٹ کی 'تائید کرنے پر اعتراض کیا جس میں کہا گیا تھا کہ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کی حد ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھی جائے۔اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں تنبیہ کی گئی تھی کہ عالمی درجہ حرارت کے ہدف کو حاصل کرنے کے بجائے دنیا اس صدی میں تین ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے کی جانب گامزن ہے اور اس میں کہا گیا کہ تعین کردہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے 'تیز رفتاری کے ساتھ وہ اقدامات کرنے ہوں گے جو آج تک نہیں کیے گئے ہیں۔سی او 24 کے آغاز سے قبل فجی کے فرینک بینیمارمرا، مراکش کے صلاح الدین مزوار، فرانس ے لوراں فبیوس اور پرو کے مینوئل پلگر ویڈال نے مشترکہ پیغام بھی جاری کیا جس میں انھوں نے کہا کہ 'کاٹیویٹسا میں ہونے والے اجلاس میں عالمی رہنما جو فیصلہ کریں گے اس کے اثرات آنے والے برسوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور اس سے پیرس معاہدے کے اہداف پورے کرنے میں مدد ملے گی۔کسی بھی قسم کی تاخیر سے ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنا زیادہ مشکل اور زیادہ مہنگا ہو جائے گا۔
تازہ ترین