• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فائیو اسٹار ہوٹل کے نام پر کیسے ملکی سرمائے کو لوٹا گیا ؟

اسلام آباد (احمد نورانی) اسلام آباد میں شہر کو بین الاقوامی ایونٹ کی میزبانی کے قابل بنانے اور دنیا کے مشہور شہروں میں شمار کرانے کی غرض سے بین الاقوامی معیار کا فائیو اسٹار ہوٹل کی تعمیر کے معاملے کو کو میڈیا کی جانب سے جان بوجھ کر کنفیوژ کیا جارہا ہےاور ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ یہ بعض قوانین کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے جسے خلاف ورزی کرنیوالے سے پیسے لے کر سدھارا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی معیار کا فائیو اسٹار یا سیون اسٹار ہوٹل تعمیر کرنا شہر کو عالمی ایونٹس جیسے کھیل، تجارتی نمائش ، کانفرنس وغیرہ کا مرکز بنانے کی طرف پہلا قدم ہے ۔ بین الاقوامی معیار کے ہوٹل کاروبار شروع کرنے کے کئی سالوں بعد منافع دینا شروع کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اس مقصد کیلئے حاصل کی گئی زمین جو اہم مقام پر موجود ہوتی ہے، کی لیز سرمایہ کاروں کو سہولت پہنچانے کی غرض سے کم قیمت پر دی جاتی ہے۔ بین الاقوامی معیار کے ہوٹلز کے مقررہ احاطے میں ہمیشہ سروس اپارٹمنٹس، کمرشل آوٹ لیٹ جیسی سہولیات ہوتی ہیں جو ہوٹل کی انتظامیہ کے زیر انتظام ہوتے ہیں تاکہ باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی فوری ضرورت پوری کی جاسکے۔ تاہم سرمایہ کار انتظامیہ کو دھوکہ دے کر زمین کم قیمت پر خریدتے ہیں اور ہوٹل کی تعمیر سے بھی پہلے بعد کمرشل دکانیں اور رہائشی اپارٹمنٹس فروخت کر کے زیادہ منافع کماتے ہیں۔ یہ سرمایہ کار بعد ازاں ہر ایک پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے غیر قانونی طور پر بنائی گئی عمارتوں کو ریگولیٹ کروالیتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے سرمایہ کار ’’سروس اپارٹمنٹ‘‘کی اصطلاح کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ یہ اصطلاح بین الاقوامی ہوٹل کی صنعت میں رہائش کی ایسی سہولت کیلئے استعمال ہوتی ہے جو ہوٹل کے احاطے میں ہو اور جہاں کچن وغیرہ جیسی مختصر سہولیات میسر ہوں تاکہ اگر کوئی مہمان طویل عرصے تک قیام کرنا چاہے تو اپنے اسٹائل اور آسانی کے مطابق رہ سکے، کیونکہ ہوٹل دنیا بھر سے آنیوالوں کو ا نکی پسند کا کھانا ہر وقت فراہم نہیں کرسکتا۔ ’’سروس اپارٹمنٹ‘‘ کی اصطلاح کبھی بھی رہائشی اپارٹمنٹ کیلئے استعمال نہیں ہوتی جہاں کوئی شخص یا فیملی مستقل قیام کر سکے، اور نہ ہی سیکڑوں افراد کو مستقل بنیادوں پر بیچا جاسکتا ہے۔ عوام اور انتظامیہ کو بیوقوف بنانے کیلئے جو حربہ استعمال کیا جاتا ہے وہ یہ کہ سرمایہ کاروں کا پیسہ ضائع ہو جائیگا وغیرہ، اور اس سب کچھ کا تذکرہ میڈیا میں بغیر یہ سوچے سمجھے کیا جاتا ہے کہ کم قیمت پر حکومت کی جانب سے زمین کی لیز دئے جانے کا کیا مقصد تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جانی چاہئے تاکہ وہ اپنے لگائے گئے سرمائے پر اچھا منافع کما سکیں، ملازمت کے مواقع پیدا ہوں اور کاروبار ترقی کر سکے لیکن انہی دلائل کی بنیاد پر کس طرح ایک فراڈ کا دفاع کیا جاسکتا ہے۔ اس سے متعلقہ مسئلے کا پس منظر یہ ہے کہ 2004میں جب اسلام آباد اسلامی تعاون کی تنظیم کے سربراہ اجلاس کی میزبانی کی تیاری کررہا تھا، دفتر خارجہ نے خطU.O.No.OIC-4/25/20-03بتاریخ 27جنوری 2004سی ڈی اے کو لکھا جس میں کہا گیا کہ شہر میں اعلی شہرت یافتہ جگہ جیسے کنوینشن سینٹر کے قریب بین الاقوامی معیار کے مطابق فائیو اسٹار ہوٹل کی تعمیر کیلئے زمین الاٹ کی جائے تاکہ بین الاقوامی ایونٹس کی میزبانی کی جاسکے۔ سی ڈی اے نے اس پر کام شروع کیا لیکن اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا جاسکا۔ تاہم بعد ازاں اسی ضرورت کے تحت سی ڈی اے نے زمین الاٹ کرنے کیلئے بولی کا عمل شروع کیا۔ شاہراہ دستور سے متصل ہوٹل گرینڈ حیات کیلئے زمین کی الاٹمنٹ اسلام آباد کے زون تھری میں کی گئی جہاں رہائشی عمارتوں کی تعمیر سختی سے منع ہے۔ ا س کیس میں زمین کے جس ٹکڑے کو لیز کیا گیا وہ دراصل کشمیر ہائی وے کی گذرگاہ ہے جہاں کسی بھی قسم کی رہائشی تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں زمین کو صرف بین الاقوامی میعار کے مطابق فائیو اسٹار ہوٹل کی تعمیر کیلئے لیز کیا گیا۔ یہ جگہ شاہراہ دستور سے متصل اور ڈپلومیٹک انکلیو کے کنارے پر واقع ہے۔ گرینڈ حیات ہوٹل کے لئے زمین محض 75ہزار روپے فی اسکوائر فٹ کے حساب سے نیلام کی گئی جبکہ اس بولی کے کچھ گھنٹوں بعد سینٹارس کیلئے نیلامی ہوئی جس کی زمین یہاں سے کافی دور اور نسبتاً کم اہم جگہ پر واقع ہے، اور جو 1لاکھ 90ہزار 1سوروپے فی اسکوائر فٹ کے حساب سے نیلام ہوئی۔ یہ اس وجہ سے گرینڈ حیات کے لئے زمین بین الاقوامی معیار کے ہوٹل اور اس سے وابستہ سہولیات کیلئے دی گئی تھی۔ یہ علیحدہ کہانی ہے کہ جس پارٹی نے سینٹارس کی بولی جیتی، اس نے بین الاقوامی معیار کے ہوٹل کی تعمیر بظاہر منافع میں تاخیر کی وجہ سے شروع نہ کی۔ یہ صریحاً پاکستانی قوم کے مفادات کے خلاف اقدام ہوگااگر ایسی قیمتی جگہ پر، جو شاہراہ دستور سے متصل ہے، دی گئی زمین کو اربوں روپے لے کر ’’سروس اپارٹمنٹ‘‘کے نام پر رہائشی فلیٹس کی تعمیر کی اجازت دے دی جائےاور سارے متعلقہ قوانین، اسلام آباد کا ماسٹر پلان نظر انداز کردیا جائے۔ اگرچہ میڈیا میں موجود بعض عناصر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ مقصد نئی آنیوالی سیاسی حکومت کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ شاہراہ دستور پر رہائشی فلیٹ کو زیادہ پیسے لے کر ریگولیٹ کر دیا جائے وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ جب 2008میں رہائشی فلیٹ کی تعمیر سے متعلق خبر بریک ہوئی تھی، بین این پی پرائیوٹ لیمیٹڈ جسے یہ کنٹریکٹ دیا گیا تھا اور جس کی سربراہی لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ توقیر ضیاء کے ہاتھ میں تھی، نے سی ڈی اے کو خط لکھ کر وضاحت کی کہ بعض لوگ غلط معلومات پھیلا کر اس قابل عزت منصوبے کی ساکھ مجروح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں سروس اپارٹمنٹ کی تعمیر جاری ہے جو ہوٹل کی بنیادی سہولیات کا حصہ ہے۔ اگرچہ اس وقت کی سی ڈی اے انتظامیہ سے بلڈنگ پلان میں تبدیلی کے بعد کچھ ریلیف حاصل کرلیا گیا تھا لیکن یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ 200سروس اپارٹمنٹس اور دکانیں کسی بھی تیسرے فریق کو کبھی بھی فروخت نہیں کی جائیں گی اور ہوٹل انتظامیہ براہ راست ان کے امور سنبھالے گی۔ اگرچہ سی ڈی اے کی جانب سے دئے گئے ریلیف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ یہ بعض افسران کی طرف سے دیا گیا تھا نہ کہ سی ڈی اے کے بورڈ کی جانب سے، ادارے نے ایسی کسی تبدیلی کی اجازت نہیں دی جس کے تحت رہائشی اپارٹمنٹ کی فروخت کی جاسکے۔ کچھ ارب روپے کے بدلے جگہ کو ریگولرائز کرنے کے حوالے سے سرکاری افسران بہت کلئیر ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ یہاں بین الاقوامی معیار کے حامل فائیو اسٹار ہوٹل کی تعمیر مقصود ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا، اور یہ کہ غیرقانونی تعمیر 100ارب ڈالر دینے پر بھی ریگولرائز نہیں ہو سکتی۔ یہ معاملہ قومی عزت اور دارلحکومت کے تشخص کی حفاظت کا ہے نہ کہ ڈھیروں پیسوں کے عیوض کسی چیز کو ریگولرائز کرنے کا۔ ایک سینئر اہلکار نے دی نیوز سے گفتگو میں سوال کیا کہ اگر آج ہم 50ارب روپے لے کر شاہراہ دستور سے متصل ان اپارٹمنٹ کو ریگولرائز کردیتے ہیں، کیا ہو گا اگر کل کوئی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 100ارب روپے دے اور پارلیمنٹ ہاوس میں فلیٹ بنائے؟کیا ہم اسے اجازت دیں گے؟ جواب ہے نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں جاری انسداد تجاوزات مہم کے متاثرین بھی یہ دلیل دے سکتے ہیں ان پر کچھ جرمانہ کر دیا جائے اور ان کا غیر قانونی قبضہ ریگولرائز کردیا جائے۔ میڈیا میں موجود عناصر یہ دلیل دیتے نظر آتےہیں کہ پاکستان میں کوئی قانون ’’سروس اپارٹمنٹ‘‘کی تشریح نہیں کرتا لہذا انہیں ریگولرائز کیا جاسکتا ہے۔ یہ دلیل سنگل بینچ اور بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ نے یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ ’’سروس اپارٹمنٹ‘‘کی تعریف بین الاقوامی طور پر بہت واضح ہے اور پاکستان میں کچھ لوگوں کی مفاد کی خاطر اسے نئے معنی نہیں دئے جاسکتے۔ گرینڈ حیات ہوٹل کو 2008کے آخر تک فعال ہوجانا تھا، جبکہ بعد ازاں یہ تاریخ 2009کے شروع کے مہینوں تک بڑھا دی گئی۔ ایک دہائی سے زائد عرصہ گذر چکا اور اب تک اس ہوٹل کی تعمیر بھی شروع نہ ہوسکی جبکہ سیکڑوں کی تعداد میں لکژری فلیٹ بن کر فروخت بھی کئے جاچکے۔ اب زور و شور سے مہم جاری ہے کہ ہر غیر قانونی تعمیر، جو کہ شاہراہ دستور سے متصل جگہ پر واقع ہے، کو ریگولرائز کردیا جائے۔ ایک دلیل جو ہوٹل کی عدم تعمیر سے متعلق میڈیا میں موجودعناصر کی طرف سے پیش کی گئی وہ سول ایوی ایشن کی جانب سے اس کی اونچائی پر اعتراض سے متعلق ہے۔ تاہم یہ اعتراض عمارت کو 23منزلہ تک محدود کرنے کے بعد حل ہو چکا تھااور جس کے بدلے بی این پی پرائیوٹ لمیٹڈ کو بڑی مہربانی یہ ملی کہ پیسوں کی ادائیگیوںکا شیڈول پانچ سال تک بڑھادیا گیا۔

تازہ ترین