• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پروفیسر ڈاکٹر علامہ اور اب شیخ الاسلام طاہر القادری مجھ سے خصوصی محبت کا سلوک روا رکھتے ہیں ۔ انہوں نے مجھے دو تین بار اندرون ملک اور بیرون ملک منہاج القرآن کی تقریبات میں مدعو کیا۔ مجھے ان سے شرف ملاقات بھی حاصل ہوتا رہا ۔علامہ طاہر القادری کے علاوہ علامہ صدیق اظہر سے بھی میری نیاز مندی ہے ۔ یہ دونوں علامہ اپنے اپنے فن میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ علامہ طاہر القادری بہترین انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں چنانچہ ان کی تنظیم کا دائرہ دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلا ہوا ہے ان سے عقیدت کا یہ عالم ہے کہ میں نے ایک کیسٹ میں ان کے عقیدت مندوں کو وجد کے عالم میں رقص کرتے اور … پھر باری باری علامہ صاحب کو سجدہ کرنے کی کوشش کرتے دیکھا لیکن علامہ صاحب کو ا ن کی یہ مشرکانہ حرکت ناگوار گزررہی تھی تاہم ان کی دلآزاری بھی نہیں کرنا چاہتے تھے چنانچہ شفقت سے ان کی کمر پر ہاتھ پھیرتے جس کی برکت سے چند لمحوں بعد وہ سجدے سے سر اٹھا لیتے اور اسی طرح وجد و سرمستی کے عالم میں رقص کرتے ہوئے واپس اپنی نشستوں پر چلے جاتے اور ان کی جگہ دوسرے ارادت مند آجاتے۔ باری باری عقیدت کے اظہار کا یہ سلسلہ تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا۔
علامہ طاہر القادری کی خوش لباسی اور خوش نوائی بھی مجھے پسند ہے۔ یہ دونوں خوبیاں ڈاکٹر عامر لیاقت میں بھی موجود ہیں مگر لباس میں طاہر القادری صاحب کی نفاست اور تقریر میں ان کی بلاغت کا کوئی جواب نہیں، علامہ صاحب کسی زمانے میں سندھی ٹوپی پہنا کرتے تھے تاہم ان کے سر پر شیخ الاسلام کی موجودہ ٹوپی زیادہ سجتی ہے۔ ویسے بھی سندھی ٹوپی کا دائرہ صرف سندھ تک محدود ہے جبکہ ان کی موجودہ شیخ الاسلام والی ٹوپی پورے عالم اسلام کی نمائندگی کرتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں علم دین سے وابستہ ہر شخص خود کو شیخ الاسلام سمجھنے لگتا ہے ،چنانچہ انہیں کسی دوسرے کے سر پر یہ تاج اچھا نہیں لگتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علماء حتیٰ کہ بریلوی مکتب فکر کے علماء نے بھی جو علامہ صاحب کے ہم مسلک ہیں ابھی تک ان کے شیخ الاسلام ہونے پر مہر تصدیق ثبت نہیں کی ۔ اس افسوناک رویے کو معاصرانہ چشمک کے علاوہ کیانام دیا جاسکتا ہے؟ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ایک اور صفت بہت نمایاں ہے وہ ان کا وسیع المشرب ہونا ہے۔ ان کے دل میں کسی بھی مکتب فکر کے حوالے سے کوئی عناد نہیں چنانچہ وہ محرم کے مہینے میں اہل تشیع کے ہاں مجلسیں بھی پڑھتے ہیں وہ جب مصائب کے بیان پر آتے ہیں تو سامعین کے علاوہ خود علامہ صاحب پر بھی رقت طاری ہوجاتی ہے۔ بیان اور انداز بیان کی یہ تاثیر کسی بڑے سے بڑے ذاکر کے ہاں بھی کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔
ہم سب کیلئے یہ فخر کی بات ہے کہ امریکہ سے شائع ہونے والی ایک کتاب میں ان کا نام اس صدی کی ان ایک سو بڑی شخصیات میں درج ہے جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا ہے۔ ان کے حوالے سے لکھے گئے باب میں ان کی خدمات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک ملاقات میں مجھے یہ کتاب دکھائی تھی۔ امریکہ میں اس طرح کی کتابیں اگرچہ حصول زر کے لئے شائع کی جاتی ہیں چنانچہ ان میں ان لوگوں کا تذکرہ بھی شامل ہوتا ہے جن کی خدمات سے ان کے محلے کے لوگ بھی واقف نہیں ہوتے تاہم وہ ان کتابوں کے پبلشر دو ایک جنیوئن نام بھی ان میں ڈال دیتے ہیں تاکہ کتاب کی کریڈیبلٹی قائم رہے چنانچہ اس میں ایک جیوئن نام ڈاکٹر صاحب کا بھی ڈال دیا گیا ورنہ اس کتاب کے پبلشر کی طرف سے مجھے بھی ایک خط ملا تھا کہ آپ کی خدمات کے پیش نظر جیوری نے آپ کا نام بھی ان شخصیات میں شامل کیا ہے جنہوں نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ آپ براہ کرم اپنا تفصیلی تعارف پانچ ہزار ڈالر کے عطیہ کیساتھ اولین فرصت میں ارسال فرمادیں، مگر میرے پاس نہ خدمات کی تفصیلی تھی اور نہ پانچ ہزار ڈالر چنانچہ میں نے معذرت کرلی۔
میں بعض معاملات میں خاصا بے وقوف واقع ہوا ہوں جبکہ میرے دوست کہتے ہیں کہ تم انکسار سے کام لے رہے ہو ورنہ تم ہر معاملے میں بے وقوف ہو۔ بہرحال میری حماقت کا ایک مختصر سا واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سے ایک بار میری ملاقات ائیر پورٹ کے لاؤنج میں ہوئی۔ میں ان کی تقریر کی لذت سے تو واقف تھا بلکہ مداح تھا اور ہوں مگر میری حماقت ملاحظہ ہو کہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا ”آپ کے پاس علم کا اتنا خزانہ ہے آپ کی ابھی تک کوئی کتاب کیوں نہیں آئی؟“ڈاکٹر صاحب میرے اس سوال پر مسکرائے اور کہا ”ابھی تک میری ڈھائی سو کتابیں شائع ہوچکی ہیں “ایک بار اسی قسم کا سوال معروف ناول نگار فاروق خالد نے بھی احمد ندیم قاسمی سے کیا تھا اور وہ یہ تھا کہ آپ افسانے کیوں نہیں لکھتے، جس کے جواب میں قاسمی صاحب نے اپنے افسانوی مجموعوں کی تعداد گنوائی تو اس نے معصومیت سے پوچھا”کیا یہ سب افسانے طبع زاد ہیں؟ اس گفتگو کے حوالے سے مجھے یاد آیا کہ ڈاکٹر صاحب تو ڈاکٹر صاحب ان کے والد گرامی بھی اپنے عہد کی ایک بہت بڑی شخصیت تھے ۔ڈاکٹر صاحب نے ان کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ قادر الکلام شاعر تھے اور ان کے بیسوں شعری مجموعے شائع ہوئے مگر امتبداد زمانہ سے ایک شعری مجموعہ بھی دستیاب نہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ان کے والد ماجد حضرت معین الدین چشتی  اور اس پائے کے دوسرے صوفیائے کرام اور اولیا اللہ کے ہم پایہ تھے مگر قدرت نے انہیں اخفاء میں رکھا۔ یہ تحریر پڑھ کر مجھے شدید احساس زیاں ہوا کہ میں اور خلق خدا ان کے ا س اخفاء کی وجہ سے ان کے فیض سے محروم رہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی تبلیغی زندگی کی ابتداء میاں محمد شریف مرحوم و مغفور کی اتفاق مسجد سے ہوئی تھی جہاں وہ جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے۔ میاں صاحب مرحوم ان کے بہت اردات مند تھے اور یہی معاملہ ان کے صاحبزادگان میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کا بھی تھا چنانچہ ایک بار ڈاکٹر صاحب حج یا عمرہ کے لئے سعودی عرب تشریف لے گئے تو میاں نواز شریف بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب غار حرا میں نوافل ادا کرنا چاہتے تھے لیکن یہ دشوار گزار راستہ طے کرنا ان کے لئے ممکن نہیں تھا چنانچہ میاں صاحب نے انہیں ا پنا کاندھا پیش کیا اور ڈاکٹر صاحب نے اپنی ایک یادداشت میں اس کا ذکر فرماتے ہوئے لکھا”ایک کشمیری فرشتہ مجھے غار حرا تک لے گیا“ مگر پھر بعد میں اللہ جانے کیا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب شریف فیملی سے دور ہوگئے ۔اتنے دور ہوگئے کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ نواز شریف پر الزام لگایا کہ انہوں نے ان پر قاتلانہ حملہ کرایا۔ انہوں نے فوٹو گرافروں کو دیوار پر لہو کے چھینٹے اور گولیوں کے نشان بھی دکھائے ۔یہ کیس ہائی کورٹ میں گیا اور ہائی کورٹ نے اس الزام کو بہتان قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے حوالے سے جو ریمارکس دئیے وہ اتنے نازیبا تھے کہ یہاں درج کرنا سوئے ادب ہے اور خون کے چھینٹوں کے بارے میں لیبارٹری رپورٹ یہ سامنے آئی کہ یہ چھینٹے بکرے کے خون کے ہیں۔ بہرحال اس قصے کو یہیں ختم سمجھیں کہ میرے دل میں ڈاکٹر صاحب کے لئے بے پناہ عزت ہے اور یوں میں اس معاملے میں کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ ویسے بھی میں پرانی وضع کا آدمی ہوں اور یوں” خطائے بزرگان گرفتن خطا امت“ کے مقولے کا قائل ہوں۔
ڈاکٹر صاحب کچھ عرصے سے ترک وطن کرکے کینیڈا کی شہریت حاصل کرچکے ہیں تاکہ پوری یکسوئی سے علمی اور تنظیمی خدمات انجام دے سکیں تاہم وہ23دسمبر کو لاہور تشریف لارہے ہیں اور ان کی آمد کا اعلان اشتہاری مہم کی صورت میں ٹی وی چینلز سے سنائی دے رہا ہے۔ آج ڈاکٹر صاحب کی یاد ان کی اس آمد کے حوالے سے ہی آئی اور جی چاہا ان سے اپنی پرانی عقیدت کا اظہار کروں۔ ڈاکٹر صاحب جو سلوگن اپنے ساتھ لارہے ہیں وہ”سیاست نہیں، ریاست بچاؤ“ کی صورت میں ٹی وی چینلز کے علاوہ ہر رکشہ کے پیچھے بھی”لٹکا“ نظر آرہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بہت زیرک انسان ہیں مگر بہت ادب سے گزارش کروں گا کہ کسی نے انہیں غلط اطلاع دی ہے کہ سیاست سے علیحدگی کی صورت میں ریاست بچائی جاسکتی ہے۔ سیاست کے ذریعے ہماری ریاست وجود میںآ ئی تھی اس کے لئے مسائل فوجی آمریتوں نے پیدا کئے اور ان مسائل سے سیاست ہی کے ذریعے نمٹا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں سازشی تھیوریوں کا بہت رواج ہے چنانچہ کہا جارہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب پاکستان آ نہیں رہے انہیں یہاں لایا جارہا ہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست کی بساط لپیٹنے کا دیرینہ خواب پورا ہوسکے اور یوں ایک غیر معینہ مدت کے لئے ایک بار پھر غیر جمہوری حکومت جمہور کی تقدیر کی مالک بن بیٹھے۔ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں لہٰذا مجھے کیا پتہ حقیقت کیا ہے؟تاہم اگر ایسا ہے تو میری خواہش ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایسی کسی طاقت کا مہرہ نہ بنیں میری طرح ڈاکٹر صاحب بھی کمر کے مہرے کی خرابی ایک عرصے سے بھگت رہے ہیں سیاست ریاست کا سب سے مضبوط مہرہ ہے۔ اللہ کرے ڈاکٹر صاحب میرے اور اپنے مہرے کے صدقے میں سیاست کے مہرے کے ساتھ چھیڑچھاڑ نہ کریں۔
تازہ ترین