• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب ڈراما، ڈراما نہیں رہا، پروڈکٹ بن گیا ہے، حسینہ معین

عکاسی: اسرائیل انصاری

پاکستان ٹیلی ویژن کے قیام کے بعد ہی ملک کو ایسے قابل، منجھے اور سلجھے ہوئے لکھاری میسّر آئے، جنہوں نے اپنی تحریروں سے پوری دنیا میں دھوم مچادی۔ ایسے ایسے ناقابلِ فراموش، مقبول سیریلز لکھے گئے، جو آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ پی ٹی وی کے سنہری دور کے معروف مصنّفین اور ڈراما نگاروں میں احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، فاطمہ ثریا بجیا، شوکت صدیقی، یونس جاوید، انور مقصود، امجد اسلام امجد، مستنصر حسین تارڑ سمیت بے شمار قد آور شخصیات میں ایک نام ممتاز مصنّفہ، مکالمہ اور ڈراما نگار حسینہ معین کا بھی ہے، جن کے لکھے ہوئے ڈرامے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت سمیت دنیا بھر میں انتہائی ذوق و شوق سے دیکھے جاتے تھے۔ حسینہ معین 20 نومبر 1941ء کو بھارت کے شہر کان پور میں پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم کان پور ہی سے حاصل کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد اُن کا گھرانہ راول پنڈی میں رہایش پزیر ہوا، پھر جلد ہی لاہور منتقل ہوگیا۔ 50ء کی دہائی میں حسینہ معین کراچی آئیں، جہاں حصولِ تعلیم کے دوران ہی ریڈیو پاکستان کراچی کے لیے ڈرامے لکھنے شروع کردئیے۔ جامعہ کراچی سے 1963ء میں تاریخ میں ماسٹرز کیا اور ریڈیو پاکستان، کراچی سے متعدد ڈرامے پیش کرنے کے بعد ٹیلی وژن کیریئر کا آغاز 1969ء میں کیا۔بہ حیثیت ڈراما نویس بے پناہ شہرت و مقبولیت حاصل کی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچیں۔ ان کے معروف ڈراموں میں پرچھائیاں، کرن کہانی، انکل عرفی، شہ زوری، پل دو پل، دُھند، بندش، تیرے آجانے سے، زیر زبر پیش، اَن کہی، تنہائیاں، دھوپ کنارے، گڑیا، آہٹ، پڑوسی، کسک، نیا رشتہ، جانے انجانے، آنسو، شاید کہ بہار آجائے، آئینہ، چھوٹی سی کہانی اور میری بہن مایا کے علاوہ دیگر متعدد شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، حسینہ معین نے فلم ’’کہیں پیار نہ ہوجائے‘‘ کی کہانی سمیت کئی مقبول فلموں کے مکالمے بھی تحریر کیے، جن میں ’’نزدیکیاں‘‘ اور ’’یہاں سے وہاں‘‘ تک شامل ہیں۔ حسینہ معین نے راج کپور کی فرمایش پر بھارتی فلم ’’حنا‘‘ کے مکالمے لکھے، جو 1991ء میں نمائش پزیر ہوئی۔ 14 اگست 1987ء کو حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغا برائے حُسنِ کارکردگی سے نوازا۔ گزشتہ دنوں جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کے لیے اُن کی نجی اور پیشہ ورانہ زندگی سے متعلق تفصیلی بات چیت ہوئی، جس کی روداد نذرِ قارئین ہے۔

اب ڈراما، ڈراما نہیں رہا، پروڈکٹ بن گیا ہے، حسینہ معین
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: خاندان،ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟والد کیا کرتے تھے، بھائی بہنوں کی تعداد؟

ج: قیامِ پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان میں میرے والد فوج میں ملازم تھے۔ والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ والد بہت ہی پیار کرنے والے نرم طبیعت کے مالک تھے۔ جب میں پیدا ہوئی، تو اُن کی پوسٹنگ کان پور میں تھی۔ تقسیم ہند بہت بڑا واقعہ ہے، جو اب تک میرے ذہن کے دریچے میں تازہ ہے، حالاں کہ اس وقت میں خاصی کم سِن تھی، 1947ء میں فسادات شروع ہوئے، تو کچھ عرصے تک ہم کان پور ہی میں رہے، لیکن جب فسادات بڑھے، تو پھر چمن گنج آگئے۔چند ماہ وہیں مقیم رہے، 14اگست 1947ء کو قیامِ پاکستان کا باضابطہ اعلان ہوا اور ہم 1948ء کے اوائل میں پاکستان منتقل ہوئے۔ اس کے لیے پہلے ہم ممبئی گئے، ممبئی سے بذریعہ بحری جہاز کراچی آئے، جہاں سے چند روز بعد والد کی آرمی میں ملازمت کے باعث پنڈی ہیڈ کوارٹر چلے گئے۔ پنڈی میں اس وقت مکمل سنّاٹا تھا، کیوں کہ وہاں سے زیادہ تر ہندو، بھارت جاچکے تھے، مسلمان بہت کم تھے، چند روز مقامی دفتر میں رہنے کے بعد میرے والد نے ’’جی ایچ کیو‘‘ میں ایک آفیسر سے گھر کے لیے کہا، تو انہوں نے کچھ مکانوں کی چابیاں دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہاں بہت سارے گھر خالی ہیں، جو آپ کو اچھا لگے، ہمیں بتادیں۔‘‘ ابّا نے جب ایک گھر دیکھا، تو وہ سامان سے بھرا ہوا تھا، یوں لگتا تھا کہ جیسے اس کے مکین کہیں گئے ہوئے ہیں اور ابھی آجائیں گے، اس کے بعد چند اور گھر دیکھے، لیکن سب ہی سامان سے بھرے پڑے تھے، تو انہوں نے یہ سوچ کر کوئی بھی مکان لینے سے انکار کردیا کہ اپنے بھرے پُرے گھروں کو مجبوری کے عالم میں چھوڑ کر جانے والوں کی تو یہاں بہت حسین یادیں اور آہیں ہوں گی، مَیں اس گھر میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچّوں کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہوں؟ اس کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک گھر کا بندوبست نہیں ہوجاتا، ہم ہوٹل میں رہیں گے۔ اس طرح پاکستان ہجرت کے بعد تین مہینے ہم ہوٹل ہی میں رہے۔ پھر فوراً ہی والد کا ٹرانسفر لاہور ہوگیا، تو لاہور میں ماڈل ٹائون میں ہمیں ایک گھر مل گیا، لیکن مجھے کان پور کا گھر بُھلائے نہیں بُھولتا، وہاں کی یادیں میرا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ میرے والدین میں ایسی محبت تھی، جو میں نے پھر کبھی کہیں نہیں دیکھی۔ اسی لیے شاید ہم بھائی بہنوں اور بھتیجے بھتیجیوں میں بھی بے انتہا پیار ہے۔ مجھے کان پور کی وہ شامیں یاد ہیں، جب والد صاحب پھول لے کرگھر آتے، ہمارے یہاں بڑا سا ایک صحن ہوتا تھا، جہاں دوپہر کے بعد نوکر پانی کا چھڑکائو کرتے، پھر جب دھوپ ڈھل جاتی، تو وہاں پلنگ رکھ کر اس پر دری، چادریں بچھائی جاتیں۔ امّاں کے بستر پر چنبیلی اور بیلے کے پھول رکھے جاتے۔ بچپن میں ہم نے بہت انجوائے کیا، ہمارے گھر میں کسی قسم کی کوئی پابندیاں نہیں تھیں، میرے والد آزد منش، آزاد ذہن کے مالک تھے۔ انگریزوں کے ساتھ کام کرتے تھے، اُن ہی کی طرح کے ڈریس اَپ ہوتے، حالاں کہ میری والدہ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ شادی کے بعد ابّا نے میری والدہ کو پڑھایا بھی اور یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ امّاں کی توجّہ ہم بچّوں کی پڑھائی پر مرکوز رہی۔ ہم آٹھ بہن بھائی ہیں، پانچ بہنیں اور تین بھائی۔ میرا چوتھا نمبر ہے۔ ایک بہن اور دو چھوٹے بھائیوں کے انتقال کے بعد اب ہم چار بہنیں اور ایک بھائی رہ گئے ہیں۔ بچپن میں میرے بہت نخرے تھے، لیکن پڑھائی میں اچھی تھی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے دو دفعہ ڈبل پروموشن ملا، لیکن میتھس مجھے نہیں آتا تھا، ریاضی میں ہمیشہ کم زور رہی، کیسے میٹرک پاس کرلیا، مجھے نہیں معلوم۔

س: بچپن کی کوئی دوستی، جو آج تک قائم ہو؟

ج: قیامِ پاکستان سے قبل ہندوستان میں جو بچپن گزرا، وہ بہت ہی شان دار تھا۔ میری ایک کزن سے بہت اچھی دوستی تھی، اسکول میں بھی کئی لڑکیوں سے دوستی تھی، لیکن اسکول کا دورانیہ چوں کہ کم تھا، تو اُس دور کی باتیں یاد نہیں۔ ہاں، میٹرک کی تمام سہیلیاں، پی ٹی وی کا گروپ، پھر جس اسکول میں ٹیچنگ کرتی تھی، وہاں کا سارا گروپ آج بھی رابطے میں ہے، اور ہم لوگ ہر سال ملتے ہیں۔

س: آپ کا شمار کہنہ مشق ڈراما نویسوں میں ہوتا ہے،آغاز کیسے ہوا؟

ج: یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میں گورنمنٹ کالج فار ویمن فریئرروڈ، کراچی میں پڑھ رہی تھی۔ ہماری اردو کی ٹیچر، معروف ادیب، ماہرِ لسانیات، شان الحق حقّی صاحب کی اہلیہ، سلمیٰ شان الحق حقّی، انتہائی وضع دار اور بہت پیاری خاتون تھیں، ایک روز انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’’ریڈیو پاکستان، کراچی سے ایک سرکلر آیا ہے، جس میں تمام کالجز کے درمیان ڈرامے لکھنے کا مقابلہ ہے، اور ہر کالج سے پچیس منٹ دورانیے کا ایک ڈراما بھیجنے کو کہا گیا ہے، تم ایک ڈراما لکھ دو۔‘‘ یہ بات انہوں نے مجھ سے اس لیے کی کہ میں اُس زمانے میں ’’وال پیپرمیگزین‘‘ کے لیے طنز و مزاح پر مبنی نگارشات وغیرہ لکھا کرتی تھی۔ جب انہوں نے مجھے ڈراما لکھنے کو کہا، تو میں نے کہا کہ ’’میں کیسے لکھ سکتی ہوں، میں نے تو آج تک کوئی ڈراما نہیں لکھا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’جو سمجھ میں آئے، لکھ دو، بھیجنا تو ہے۔‘‘ پھر میں نے وہیں بیٹھ کر جیسے تیسے ایک ڈراما ’’پٹریاں‘‘ لکھ دیا، جو غیریقینی طور پر بہت اچھا ہوگیا اور یہ میری خوش نصیبی تھی کہ میرا لکھا ہوا اسکرپٹ آغا ناصر صاحب کے ہاتھ لگا۔ انہوں نے جب پڑھا، تو انہیں بہت پسند آیا۔ کہنے لگے، مَیں اسے خود پروڈیوس کروں گا۔ بہرحال، جب ڈراما مکمل ہوا اور ریڈیو پر نشر کیا گیا، تو اس قدر پسند کیا گیا کہ اُسے ایوارڈ ملا۔

س: اب تک اندازاً کتنے ڈرامے/سیریلز لکھ چکی ہیں؟

ج: لگ بھگ 50ٹی وی سیریلز لکھ چکی ہوں۔ اس کے علاوہ بہت سے سنگل ڈرامے بھی لکھے ہیں، لیکن درست تعداد یاد نہیں۔ ریڈیو کے لیے تو لگ بھگ بیس ڈرامے لکھے، کیوں کہ جب پہلا ڈراما ہِٹ ہوا اور اس پر ایوارڈ بھی ملا، تو پطرس بخاری کے بھائی، زیڈ اے بخاری نے خاص طور پر میرے ڈرامے کا اسکرپٹ دیکھا اور کہا کہ ’’یہ کسی بچّی کا نہیں، کسی بڑے کا لکھا لگتا ہے۔‘‘ انہوں نے آغا ناصر سے پوچھا، آپ نے کیسے اس ڈرامے کو منتخب کیا؟‘‘ تو انہوں نے کہا کہ ’’مسز حقّی نے مجھے دیا ہے اور وہ یقیناً ایک ذمّے دار استاد اور پرنسپل ہیں۔‘‘ خیر، جب سلمیٰ حقّی صاحبہ نے پرنسپل کا تصدیقی لیٹر انہیں بھیجا تو انہیں یقین آیا کہ یہ میرا ہی تحریر کردہ ہے۔ تو انہوں نے بہت شاباش دی، لیکن آغا ناصر اکثر کہتے کہ ’’تم نے تو شروع دن ہی میری نوکری ختم کروادی تھی۔‘‘ پھر اسٹوڈیو نمبر9سے میرے پاس لیٹر آیاکہ ہمارے لیے ڈرامے لکھیے، تو میں نے دس پندرہ ڈرامے لکھے۔ اس کے بعد جب یونی ورسٹی چلی گئی، تو یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ اُن ہی دنوں میرے والد نے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لے لی، جس کے بعد معاشی حالات پر کچھ متاثر ہوگئے، تو میں نے والد سے ملازمت کی اجازت مانگی، اس پر وہ بہت ہنسے کہ ’’تم کیا کروگی، کہاں جاب کروگی؟‘‘ میں نے کہا ’’میں پڑھائوں گی۔‘‘ اُس وقت ’’خالق دینا خوجا اسکول‘‘ میں میری ایک سہیلی پڑھاتی تھی، جس نے مجھے بہ حیثیت آرٹ ٹیچر وہاں تعیّنات کروادیا۔ وہاں دو سال تک پڑھاتی رہی۔ اسی دوران اسکول کے پرنسپل بختیاری صاحب کی ہدایت پر بی ایڈ بھی کرلیا۔

اب ڈراما، ڈراما نہیں رہا، پروڈکٹ بن گیا ہے، حسینہ معین
حسینہ معین کو ملنے والے ایوارڈز، اعزازات

س: پی ٹی وی کے زمانے کے ڈراموں اور آج کے ڈراموں میں کیا واضح فرق محسوس کرتی ہیں؟

ج: پی ٹی وی کے ڈراموں میں اور آج کے ڈراموں میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت جو ہمارے ہیڈ تھے، انہیں ہمیشہ یہ خیال رہتا تھا کہ اپنی تہذیب، ثقافت اور زبان کبھی خراب نہ ہونے پائے۔ وہ ایسے معاشرتی موضوعات کا انتخاب کرتے، جو خاندان کے ہر فرد کے لیے قابلِ قبول ہوتے۔ گھر کے سب افراد ایک ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھا کرتے۔ اُس دور کے مستند لکھاری ان باتوں کو پیشِ نظر رکھتے کہ جو چیز پیش کی جارہی ہے یا دکھائی جارہی ہے، اس میں غیر ضروری طوالت نہ ہو کہ دیکھنے والے بیٹھے بیٹھے تھک جائیں یا دیکھتے دیکھتے اُکتاجائیں۔ شروع سے آخر تک ڈرامے کے مختلف حصّوں میں اتنی ہم آہنگی ہوتی کہ دیکھنے والے کی دل چسپی اور توجّہ آخر تک برقرار رہتی۔ ڈراما لکھنے والے بھی ان ہی پابندیوں کو سامنے رکھ کرلکھا کرتے تھے، آج کل ان باتوں کا قطعی خیال نہیں رکھا جارہا۔ اب میرٹ اور معیار پر زیادہ توجّہ نہیں دی جاتی۔

س: آپ کا پہلا ٹی وی ڈراما، کون سا تھا اور کس سن میں آن ائر ہوا؟

ج: میرا ریڈیو پاکستان سے 1969ء میں نشر ہونے والا ڈراما ’’بھول بھلّیاں‘‘ پہلی بار پی ٹی وی پر ’’نیا راستہ‘‘ کے عنوان سے ٹیلی کاسٹ کیا گیا، لیکن بہ طور خاص پی ٹی وی کے لیے میں نے پہلا ڈراما ’’ہیپی عید مبارک‘‘ جنوری 1972ء میں تحریر کیا، جو عین عید کے روز پیش کیا گیا، تومیں اسے دیکھ نہیں سکی تھی، لیکن رات کو افتخار عارف اور جی ایم، پی ٹی وی سمیت دیگر دوستوں کی ٹیلی فون کالز کا تانتا بندھ گیا، سب ہی نے ڈرامے کی تعریف کی، تو بڑی خوشی ہوئی کہ واہ کمال ہوگیا، مجھے تو یقین ہی نہیں تھا کہ اتنا اچھا ہوجائےگا۔ پھرچند روز بعد اسلام آباد سے ایم ڈی، پی ٹی وی کراچی تشریف لائے اور ایک چھوٹا سا فنکشن کیا، جس میں ڈرامے کے سب ہی اسٹارز موجود تھے۔ اس موقعے پر انہوں نے سب کو دو دو سو روپے لفافے میں رکھ کے بہ طور انعام دیئے۔ جنہیں میں نے بہت عرصے تک سنبھال رکھا کہ یہ میرا پہلا انعام ہے۔

س: آپ کو اپنا سب سے اچھا ڈراما کون سا لگتا ہے؟

ج: سیریلز میں تو اَن کہی، تنہائیاں، دھوپ کنارے اور انکل عرفی جب کہ سنگل ڈراموں میں ’’سنگسار‘‘ اچھا لگتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور ڈراما ’’گڑیا‘‘ بھی پسند ہے، جسے جاپان سے ایوارڈ ملا۔

س: آپ نے اپنی زندگی کا ایک طویل حصّہ لکھنے لکھانے میں گزار دیا، ڈراموں کے علاوہ اور کن اصناف پر طبع آزمائی کی؟

ج: میرا زیادہ فوکس ڈرامانگاری ہی پر رہا۔ افسانے کبھی نہیں لکھے، البتہ کسی زمانے میں ایک ناول ’’پُل صراط کا سفر‘‘ لکھا تھا، جو اب تک چھَپ نہیں سکا۔ اب ایک پبلشر سے بات چیت ہوگئی ہے، اور عن قریب ہی وہ شایع ہوجائے گا۔ شاعری کا کبھی شوق نہیں رہا، البتہ پڑھنے میں دل چسپی ہے۔

س: سنا ہے، جس طرح انورمقصود نے اپنے ڈرامے آنگن ٹیڑھا، ہاف پلیٹ ،تھیٹر پر پیش کیے، آپ بھی ’’شہزوری‘‘ تھیٹر پر پیش کرنے کی پلاننگ کررہی ہیں؟

ج: جی ہاں، ڈائریکٹر اس پر کام کررہے ہیں، کاسٹنگ کا مرحلہ مکمل ہوتے ہی عن قریب اسٹیج پر پیش کردیا جائے گا۔

س: پاکستان ٹیلی ویژن پر راج کرنے والے ڈراما نگاروں سے اب ڈرامے کیوں نہیں لکھوائے جارہے؟

ج: اب رہ کون گیا ہے، اور جو رہ گئے ہیں، وہ خود ہی پیچھے ہٹ گئے ہیں، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سیّد سمیت پائے کے ادیبوں نے اس لیے لکھنا چھوڑ دیا ہے کہ اب ڈراما، ڈراما نہیں رہا، پروڈکٹ بن گیا ہے۔ جب ڈراموں میں انگریزی کے Funکے ساتھ اردو کے فن کو بھی نکال دیا جائے، تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔ اب تو صرف ’’تماشا‘‘ دکھایا جارہا ہے۔

س: پچھلی کئی دہائیوں سے کوئی حسینہ معین، فاطمہ ثریا بجیا، امجد اسلام امجد، انور مقصود کیوں پیدا نہیں ہورہے؟

ج:اصل میں اس میں گڑ بڑ یہ ہوئی کہ چینلز والوں کو خود بھی نہیں پتا کہ آرٹ کیا ہے اور کلچرل، ادب، زبان کو کس طرح پروموٹ کیا جاتا ہے، اس لیے اب سب ہی کمرشل چیزیں بنارہے ہیں۔ آج کل کے ڈراموں میں بری زبان استعمال کی جاتی ہے، گالم گلوچ ہوتی ہے۔ تھرڈ کلاس جوکس ہوتے ہیں، بری ڈریسنگ ہوتی ہے، اور زیادہ تر وہ چیزیں دکھائی جارہی ہیں، جن کا ہمارے معاشرے، کلچر، مذہب میں کوئی تصوّر ہی نہیں، تو ظاہر ہے، اس صورتِ حال میں تو یہی ہوگا۔

س: آج کل جو دکھایا جارہا ہے،وہ ڈراما نہیں، تو پھر کیا ہے؟

ج: دیکھیں، ڈراما دراصل حقیقی زندگی کا عکس ہوتاہے۔ ڈرامے کا تو مطلب ہی یہی ہے کہ انسانی عمل اور انسانی شخصیت کو کہانی کے ذریعے پیش کیا جائے، مگر اب ہو یہ رہا ہے کہ باہر سے کچھ ٹکڑے چُرا کر ان ہی کے موضوعات پر سیریلز بنائے جارہے ہیں، کامیڈی کے دوران بے انتہا اوور ایکٹنگ ہوتی ہے۔ بہ قول شیکسپئر، ’’کامیڈی اور ٹریجڈی میں نازک سی ایک لکیر ہوتی ہے، کامیڈی کے دوران اگر اسے پار کرلیا جائے، تو وہ ٹریجڈی بن جاتی ہے، اسی طرح اگر ٹریجڈی کے دوران پار کرجائیں، تو وہ کامیڈی بن جاتی ہے۔‘‘

س: آج کا ٹیلی ویژن ڈراما تو سپرہٹ ہوجاتا ہے، لیکن ڈراما نگار کا کچھ پتا نہیں ہوتا، اس کی کیا وجہ ہے؟

ج: کسی کی تحریر یا شاعری کا ایک ٹکڑا پڑھ لیں، تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کس کا ہوگا، ہر ایک کا اپنا اسٹائل، اپنی زبان اور اپنا اسلوب ہوتا ہے۔مگر آج کل توڈراموں کی فیکٹریز بن گئی ہیں، جن میں آٹھ دس لوگوں کے لکھے ہوئے سینز آگے پیچھے جوڑ دیئے جاتے ہیں، تو پھر آپ ہی بتائیے کہ کیسے پتا چلے گا کہ یہ کس کا لکھا ہوا ہے۔

س: تو کیا نئے لکھنے والوں کا ادب سے کوئی رشتہ نہیں،صرف کمرشل ازم ہی رہ گیا ہے؟

ج: کچھ لوگوں کا ادب سے رشتہ ضرور ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی حالات کے تحت مجبور ہیں، انہیں بھی کام کرنا ہے، اب لاتعداد چینلز بے شمار ڈرامے بنارہے ہیں، جس کی وجہ سے ڈرامے تشکیل دینے والوں نے بہت سی چیزوں کو رَد کردیا ہے۔ پہلے سینسر بورڈ ہوتا تھا، ماہرین پر مشتمل کمیٹی ہوتی تھی، اس کے علاوہ اسکرپٹ ایڈیٹر ہوتا تھا۔ پی ٹی وی میں افتخار عارف اور مدبّر رضوی اسکرپٹ ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔ اتنے قابل لوگ انتہائی گہرائی سے پڑھتے تھے کہ ذرا سی بھی غلطی کی گنجائش نہیں رہتی تھی، اگر انہیں کہیں لگتا کہ اس جملے کا مطلب کچھ اور لیا جائے گا، تو فوراً رائٹر ہی سے تبدیل کروالیا کرتے ، لیکن اب تو اداکارخودہی اسکرپٹس کی لائنیں تبدیل کررہے ہوتے ہیں۔

س: آپ کی نگاہ میں سب سے بڑا اور عظیم ڈراما نگارکون ہے؟

ج: باہر کے ڈراما نگاروں میں تو شیکسپئر سے بڑا ڈراما نگار کوئی نہیں، اس کے علاوہ سروائلڈ، ایچ جی ویلز کا شمار بھی عظیم ڈرامانگاروں میں ہوتا ہے۔

س:ممتاز بھارتی اداکار راج کپور سے آپ کی ملاقات کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے، اس حوالے سے کچھ بتائیے؟

ج: اُس زمانے میں ہم ڈراما بندش یا دُھند کے لیے آڈیشن لے رہے تھے، ساحرہ کاظمی بھی میرے ساتھ تھیں۔ لڑکے لڑکیوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں، جن سے مکالمے ادا کروائے جارہے تھے، جب کوئی آکے پرفارمنس دیتا، تو ہم مزاحاً کہتے کہ یہ دلیپ کمار آگئے، یہ سنجیو کپور آگئے یا ہیما مالنی آگئیں۔ ابھی ہم آڈیشن لے ہی رہے تھے کہ اسی دوران پروڈیوسر ظہیر خان کا چپراسی میرے پاس آیا اور کہا کہ ’’حسینہ بی بی! آپ کے لیے راج کپور کا فون آیا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی ساحرہ نے قہقہہ لگایا کہ ’’لو بھئی، راج کپور بھی آگئے۔‘‘ ہم نے ہنسی مذاق میں بات اُڑادی، لیکن پھر ظہیرخان اپنے کمرے سے آئے اور سنجیدگی سے کہا کہ ’’حسینہ! ممبئی سے فون آیا ہے، تم سنو تو سہی۔‘‘ خیر میں نے ان کے کمرے میں جاکر فون اٹھایا، تو دوسری طرف راج کپور کے اسسٹنٹ، اشوک صاحب تھے، انہوں نے کہا کہ ’’حسینہ بی بی! ہم آپ کو دو سال سے تلاش کررہے ہیں، آج بڑی مشکلوں سے پی ٹی وی کا یہ نمبر ملا ہے، آپ اپنے گھر کا نمبر دیجیے، راج کپور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ خیر، میں نے اپنا نمبر دے دیا۔ پھر اسی روز رات کو راج کپور صاحب نے فون کیا اور کہا کہ ’’دیکھیے، میں نے خواجہ احمد عباس سے ایک کہانی لکھوائی ہے، ’’حنا‘‘۔ اور وہ اُس وقت تک نہیں بنے گی، جب تک آپ اس کے ڈائیلاگز نہیں لکھیں گی، مَیں نے آپ کے تقریباً تمام ہی ڈرامے دیکھے ہیں، جس کے بعد یہ طے کرلیا ہے کہ میری فلم کے ڈائیلاگز اگر کوئی لکھے گا، تو صرف آپ ہی لکھیں گی۔‘‘ میں نے کہا ’’جناب! بات یہ ہے کہ پاکستان سے بھارت جانا بہت مشکل ہے۔‘‘ تو انہوں نے کہا کہ ’’اس کی پروا نہ کریں، میں اس کی اجازت دلوادوں گا۔‘‘ میں نے کہا ’’چلیں، آپ بھارت آنے کی اجازت تو دلوادیں گے، لیکن وہاں لکھنے کی اجازت کون دلوائے گا۔‘‘ تو انہوں نے کہا کہ ’’وہ بھی مل جائے گی، آپ کوشش کیجیے گا۔‘‘ پھر ہر دوسرے تیسرے روز اُن کا فون آنے لگا۔ یہ 1988ء کا زمانہ تھا اور جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی، میں کیا کوشش کرتی۔ بالآخر انہوں نے کہا کہ ’’چلیں آپ نہ لکھیں، لیکن مجھ سے مل تو لیں، مجھے آپ سے ملاقات کا بہت شوق ہے۔‘‘ خیر، مجھے کسی طرح ویزا ملا، تو اپنی چھوٹی بہن غزالہ کے ساتھ بھارت پہنچی، اس موقعے پر انہوں نے ہمارا بھرپور استقبال کیا، وہ اپنے عملے کے ساتھ پھولوں کے ہار اور گل دستے لیے موجود تھے۔ اس قدر ہماری پزیرائی کی، جسے بھلانا ممکن نہیں۔ ہمیں ممبئی کے مہنگے ترین ہوٹل ’’تاج محل‘‘ میں ٹھہرایا۔ انہوں نے اپنے سیکریٹری اشوک کو خصوصی ہدایت کردی تھی کہ ہمارے ان مہمانوں کو ممبئی گھمائیں، شاپنگ کروائیں، پھر شام کو انہوں نے اپنے گھر مدعو کیا۔ وہاں اُن کی بیگم، کرشنا سے ملاقات ہوئی، جو بہت سگھڑ اور پیاری خاتون تھیں۔ انہوں نے ہمارے لیے انواع و اقسام کی اس قدر چیزیں بنائی ہوئی تھیں کہ بڑی سی ڈائننگ ٹیبل پوری طرح بھرگئی۔ اس پر اُن کا اصرار کہ یہ بھی کھائیں، وہ بھی کھائیں۔ بہرحال، بہت اچھا رہا، اس دن راج صاحب نے لکھنے لکھانے کی کوئی بات نہیں کی، بس اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ وہ بہت اچھی اور فلسفیانہ گفتگو کرتے تھے، ادب کی ہر رمز سے واقف تھے، حتیٰ کہ دینِ اسلام کے بارے میں بھی خاصی معلومات رکھتے تھے۔ گفتگو کے دوران کئی بار قرآنِ پاک کی مختلف آیات بھی کوٹ کیں۔ اس موقعے پرانہوں نے اپنے خاندان کے ایک ایک فرد سے ملوایا، ان کے تینوں بیٹے رندھیر، رِشی اور راجیو بھی موجود تھے۔ دعوت کے اختتام پر گھر سے چلتے ہوئے انہوں نے ہم سے کہا کہ ’’آپ پہلی بار بھارت آئی ہیں، تو اِن اِن جگہوں پر جاکر اچھی طرح گھوم پھرلیں۔‘‘ پھر انہوں نے اجمیر شریف، جے پور، دہلی، لکھنؤ اور آگرہ سمیت کئی اور دیگر مقامات کا تفصیلی پروگرام بناکر اشوک کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ’’ اس کے علاوہ بھی یہ جہاں جہاں جانا چاہیں، انہیں لے کر جائیں۔‘‘ ہم آٹھ روز تاج محل ہوٹل میں رہے، اس دوران روز گھومتے، مختلف دعوتوں میں شریک ہوتے۔ ممبئی فلم انڈسٹری کے مختلف فلمی ستاروں سے ملاقاتیں ہوتیں۔

س: اب تک کتنے اعزازات، ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے؟

ج: پی ٹی وی کی طرف سے بیسٹ رائٹر کا ایوارڈ تین بار مل چکا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ایوارڈ ’’10 ایئر بیسٹ رائٹر ایوارڈ، (1973تا 1983ء) دس سالہ کارکردگی پر دیا گیا۔ جب کہ پی ٹی وی کے پہلے ’’کمپیٹیشن پلے‘‘ میں پانچوں سینٹرز سے بھیجے گئے، ڈراموں میں میرے ڈرامے ’’سنگسار‘‘ کو پہلا ایوارڈ ملا، اس کے علاوہ بھی بے شمار ایوارڈز ملتے رہے۔ اب تو الماری بھرچکی ہے۔ بہت سے ایوارڈز تو لپیٹ کر بیڈ کے نیچے رکھے ہوئے ہیں۔

س: آج کل کیا مصروفیات ہیں؟

ج: میں نے اسکاٹ لینڈ میں ایک فلم لکھی ہے، جس کے شوٹ کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہوں، فلم کی کہانی دیارِ غیر جا بسنے والے لوگوں پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل، آصف غفور کی فرمایش پر بھی لَو اسٹوری اور کامیڈی پر مبنی ایک سیریل لکھ رہی ہوں۔

س: آپ کی صبح کب ہوتی ہے؟

ج: میری صبح ایک بجے دن کو ہوتی ہے۔

س: فارغ اوقات کے کیا مشاغل ہیں؟

ج: مَیں رات میں لکھتی ہوں، دن میں دوستوں سے ملاقاتیں کرتی ہوں، آرٹس کائونسل میں لٹریری کمیٹی کی چیئرپرسن ہونے کے ناتے بھی میری ڈیوٹی ہے، تو وہاں جو مختلف پروگرامز ہوتے ہیں، اُن میں شرکت کرتی ہوں۔ کتابوں کی تقریب ِ پزیرائی میں لوگ بلاتے ہیں، تو کتابیں پڑھتی ہوں اور ان پر بولتی ہوں۔

س: زندگی کی پہلی کمائی کب اور کتنی تھی؟

ج: 1964ء میں جب فضل الرحمٰن اسکول فریئرروڈ، کراچی میں پڑھانا شروع کیا، تو وہاں سےمجھے پہلی تن خواہ 345روپے ملی، جو میری زندگی کی پہلی کمائی تھی۔

س: کس مقام تک پہنچنا چاہتی ہیں؟

ج: میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ کس مقام تک جانا ہے، لیکن اللہ پاک کے کرم، ماں باپ کی دعائوں سے میرا ہر کام اچھا ہوجاتا ہے۔

س: آئندہ پانچ سال بعد خود کو کہاں دیکھتی ہیں؟

ج: پتا نہیں یہاں ہوں گی بھی یا نہیں۔

س: زندگی سے کیا سیکھا؟کسی کی احسان مند ہیں؟

ج: دیکھیے میں ہر اُس انسان کی احسان مند ہوں، جس نے مجھے کچھ سکھایا۔ جس نے آگے بڑھنے کا راستہ دیا، ان میں بالخصوص پی ٹی وی کے لوگ شامل ہیں، جنہوں نے ہمیشہ مجھے عزت دی، میرا خیال رکھا، بلکہ باقاعدہ حوصلہ افزائی کی۔ ان میں افتخار عارف، محسن علی اور حیدرامام رضوی کے علاوہ دیگر بہت سے لوگ شامل ہیں۔

س: زندگی میں جوچاہا،پالیا، یا اب بھی کوئی خواہش تشنہ ہے؟

ج: مَیں فلم ’’حنا‘‘ کے بعد ایک اور اچھی سی فلم بنانا چاہتی ہوں۔

س: فلم’’ حنا‘‘ کا کتنا معاوضہ طے ہواتھا؟

ج: راج کپور صاحب نے خصوصی طور پر مجھے اپنے ملک بلا کر جو عزت دی اور میرے اوپر جتنا خرچ کیا، آپ اندازہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے فرسٹ کلاس میں بلایا، انتہائی مہنگے ترین ہوٹل میں ایک ہفتے تک ٹھہرایا۔ پھر مجھے لکھنؤ بھیجا، دہلی بھیجا۔ ان کی ایک گاڑی اور ایک سیکریٹری ہمہ وقت میرے ساتھ رہتا تھا۔ پھر ہم جے پور گئے، جہاں رام باغ پیلس میں ٹھہرے، وہاں ہمیں پنک روم میں ٹھہرایاگیا۔ پھر ہم اجمیر گئے۔ راج کپور کا کہنا تھا کہ ’’جب بھی ہم کوئی فلم شروع کرتے ہیں، توپہلے اجمیر جاکر حاضری ضرور دیتے ہیں۔‘‘ حالاں مَیں پیری فقیری کی کچھ زیادہ قائل نہیں۔ بس، اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کرتی ہوں۔ خیر، میں اپنی بہن غزالہ کے ساتھ وہاں گئی۔ پھر جب دہلی جانا ہوا، تو رشی کپور اور نیتو کی شادی کی سال گرہ تھی، اس میں بھی انہوں نے ہمیں مدعو کیا۔ جب ہم وہاں گئے، تو رندھیر نے کہا ’’حسینہ بی بی! آپ کا لفافہ رکھا ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’رکھے رہیے، آئندہ کبھی لے لیں گے۔‘‘ دراصل، مجھے معاوضہ لینا اچھا نہیں لگا۔ اپنے ملک سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، میں پیسے تو لے لیتی، لیکن پھرمیرا دل ہمیشہ اس بات پر دُکھتا کہ میں نے اپنے ملک کو پسِ پشت ڈال کر پیسے لے لیے۔اتفاق کی بات ہے کہ فلم ’’حنا ‘‘جب سنیمائوں میں پیش کی جانے والی تھی، اسی زمانے میں بابری مسجد کا سانحہ پیش آگیا، جس کے بعد پاک، بھارت تعلقات بہت خراب ہوگئے، تو میں نے رندھیر کو خط لکھا۔ اُس وقت تک راج کپور صاحب کا انتقال ہوچکا تھا، میں نے لکھا کہ ’’میں نے جو کچھ لکھا ہے، وہ سب راج صاحب کے لیے لکھا ہے، مجھے کچھ نہیں چاہیے، بس ایک درخواست ہے کہ میرا نام فلم میں شامل نہ کریں کہ میرے لیے یہاں بہت مشکل ہوجائے گی۔‘‘ اُسے میری بات اچھی نہیں لگی، اُس نے آخر میں میرا نام ڈال بھی دیا اور اب تک کہتا ہے کہ’’ آپ نے فلم سے اپنا نام نکلواکے بہت زیادتی کی۔‘‘

س: آپ کی پسندیدہ کتب/ شاعر؟

ج: میرے پاس بے شمار کتابیں ہیں، پوری ایک لائبریری ہے۔ میں شاعری میں غالب کو بہت زیادہ پسند کرتی ہوں، ان کے علاوہ میر، فیض احمد فیض، جب کہ موجودہ دَور کے شاعر، امجد اسلام امجد بھی اچھے لگتے ہیں۔ کتابوں میں آج کل نیل ڈونلڈ کی ’’کنورسیشن وِد گاڈ، لَو وِد گاڈ، فرینڈ شپ وِد گاڈ‘‘ پڑھ رہی ہوں۔

س: غصّہ آتا ہے، آئے تو ردعمل کیا ہوتا ہے؟

ج: غصّہ تو ہر انسان کو آتا ہے، مجھے بچپن سے یہ تربیت ملی ہے کہ جذباتی اور حواس باختہ نہیں ہونا، چیخنا چلّانا نہیں، نہ ہی بری زبان استعمال کرنی ہے۔ لہٰذا غصّے کی حالت میں عموماً چُپ ہوجاتی ہوں۔

س: فیصلے درست کرتی ہیں، دل کی سنتی ہیں یا دماغ کی؟

ج: فیصلے کے وقت دماغ کا بھی استعمال کرتی ہوں۔ بعض اوقات دل کی بھی سنتی ہوں۔ ویسے میں نے اپنے دل و دماغ کو ایک راستے پر لگادیا ہے۔ اس لیے عموماً دونوں ہی کا فیصلہ ہوتا ہے۔

س: شہرت نے آپ کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب کیے؟ اپنی شخصیت میں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟

ج: بس یہ ہے کہ اچھا لگتا ہے کہ جب کہیں جاتی ہوں، لوگ رک کر اپنائیت سے ملتے ہیں۔ حالاں کہ میں پچھلے دس بارہ برس سے کچھ نہیں لکھ رہی، پھر بھی لوگ پہچان لیتے ہیں، ملتے ہیں، تصویریں کھنچواتے ہیں، بات کرتے ہیں، تو یوں لگتا ہے کہ کچھ کرلیا ہے میں نے۔ اپنے وجود کی گواہی تو دے دی ہے ناں۔ راحت کاظمی نے ایک بار مجھے ایک کتاب تحفے میں دی تھی اور اس پر لکھا تھا ’’زندگی کے سات دروازے ہیں۔ اُن میں سے کسی ایک پر بھی اپنا نام لکھ دیا جائے، تو یہ کام یابی کی نشانی ہے، مگر تم نے تو ساتوں پر اپنا نام لکھ دیا ہے۔‘‘

س:اپنی شخصیت کی کون سے چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟

ج: میں مثبت سوچ کی حامل ہوں۔ ٹوٹلی پازیٹو۔ میرے ساتھ کوئی ظلم بھی کرتا ہے، تو میں معاف کردیتی ہوں۔

س: پریشانی سے نکلنے کے لیے کیا کرتی ہیں؟

ج: پریشانی سے نکلنے کے لیے میرے پاس بڑے طریقے ہیں، میوزک سنتی ہوں، فلم دیکھ لیتی ہوں، دوستوں کے پاس چلی جاتی ہوں۔ میری بھانجیاں، بھتیجیاں بہت ہیں، ان کے ساتھ گھومنے نکل جاتی ہوں۔

س: آپ کی زندگی کا سخت ترین دَور کون سا ہے؟

ج: جب میرے والد کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوا۔ وہ میری زندگی کا پہلا حادثہ تھا، جب میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا۔ میرے والد نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی، کبھی کسی کی سرزنش نہیں کی۔ سچّی بات تو یہ ہے کہ میں نے اپنے والد جیسا انسان کبھی دیکھا ہی نہیں۔

س: تنقید کی کس حد تک قائل ہیں؟ آپ پر کوئی تنقید کرے تو کیسا لگتا ہے؟

ج: دیکھیے، تنقید اگر مثبت طور پر ایمان داری سے کی جارہی ہو، تو انسان برداشت کرلیتا ہے اور چُپ رہتا ہے، لیکن اگر غلط ہو، بے ایمانی سے کی جارہی ہو، تو اچھا نہیں ہوتا۔

س: والدین کی محبت کو کس طرح بیان کریں گی؟ خصوصاً ماں کی محبت کو؟

ج: میرے والد کا انتقال جنوری 1972ء میں، جب کہ والدہ کا 1997ء میں ہوا۔ میں کہتی ہوں کہ پوری فیملی ایک طرف اور میرے والدین ایک طرف۔ یہ ہمارے والدین کی آپس کی محبت اور تربیت ہی کا نتیجہ ہے، جو آج تک ہم سب میں بے انتہا محبت ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔

س: گھر والوں کو آپ کی کون سی عادت ناپسند ہے؟

ج: دیر تک سونے کی۔

س: رائٹر نہ ہوتیں، تو کس فیلڈ کا انتخاب کرتیں؟

ج: شاید پینٹر بن کر نام کماتی۔ میرے بھائی کو ڈائو میڈیکل کالج میں پینٹنگز پر ایوارڈ ملا، جب کہ دوسرے بھائی، جن کا انتقال ہوگیا، وہ بھی بہت اچھی تصویریں بناتے تھے۔ اب میرا بھتیجا تصویریں بناتا ہے۔

س: سال گرہ مناتی ہیں؟

ج: جی ہاں،گھر والے بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ دوست احباب بھی مناتے ہیں، اور آرٹس کائونسل والے بھی خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔

س: کوئی ایسی یاد، جسے دل سے جدا نہیں کرنا چاہتیں؟

ج: میرے جو دوست چلے گئے، ان کی یادیں بُھلائے نہیں بُھولتیں۔ جب کہ والدین کی یادیں تو ہر وقت ستاتی ہیں، امّاں کا کمرا اب تک امّاں ہی کا کمراکہلاتا ہے، پھر پی ٹی وی کے دوست، سیّد محسن علی اور شیرین خان (اطہر وقار عظیم کی بیگم) نے مجھے بہت پیار دیا، وہ مجھے بہت یاد آتے ہیں۔

س: اگر موبائل فون زندگی سے نکال دیا جائے، تو؟

ج: بہت اچھا ہوجائے گا، اتنا وقت ضائع ہوتا ہے۔

س: کھانا پکانے کا شوق ہے؟

ج: بالکل نہیں، قطعاً نہیں۔

س: کون سا کام کرنے کو بہت دل چاہتا ہے اور کون سا نہیں؟

ج: گھومنے کو بہت دل چاہتا ہے، لیکن گھومنے میں مشکل یہ ہے کہ پہلے بہت سی سہیلیاں تھیں، پھر وقت کے ساتھ سب اپنے اپنے گھر اور بچّوں میں مصروف ہوگئیں، تو اب مواقع میّسر نہیں۔

س: کتنے ممالک گھوم چکی ہیں؟

ج: چھے بار تو بھارت گئی ہوں۔ ایک بار راج کپور صاحب کی فلم کے لیے گئی تھی۔ ایک بار جب دور درشن پہ میری سیریل ’’کش مکش‘‘ چلی، پھر سونی ٹی وی نے پچاس قسطوں پر مشتمل سیریل ’’تنہا‘‘ لکھوایا۔ پھر سارک والوں نے کھٹمنڈو، نیپال میں ایک کانفرنس میں بلایا، وہاں گئی۔ سری لنکا گئی، ماریشس گئی، یورپ دیکھا، انگلینڈ دس بارہ دفعہ گئی، اسکاٹ لینڈ کئی دفعہ جانا ہوا۔ وہاں تین سیریل لکھے، اور اب ایک فلم لکھ رہی ہوں۔ امریکا نہیں دیکھا تھا، لیکن اب عن قریب پاکستان کے لیے فنڈ ریزنگ کے پروگرام میں مجھے بہ حیثیت مہمان خصوصی وہاں بھی مدعو کیا گیا۔

س: گھر سے نکلتے ہوئے کون سی چیزیں لازمی ساتھ رہتی ہیں؟

ج: چشمہ، موبائل فون، پرس ڈائری۔

س: کبھی کوئی سچا دوست ملا، جس کی دوستی پر فخر محسوس ہو؟ آپ اچھی دوست ہیں یا آپ کے دوست اچھے ہیں؟

ج: میرے سارے دوست اچھے اور سچّے ہیں۔ میری ایک دوست فرخندہ تھی، جس کا انتقال ہوگیا۔ محسن صاحب بہت اچھے دوست تھے، شیرین بہت اچھی دوست تھی۔ پی ٹی وی کی ڈیزائنر، عابدہ بشیر بہت اچھی دوست ہیں، خواجہ نجم الحسن اچھے دوست تھے۔ مطلب یہ وہ لوگ ہیں، جو واقعی دوست کہلانے کے قابل ہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی وی کی ایم ڈی رعنا شیخ۔

س: آپ کےڈراموں کا مرکزی کردار ہمیشہ عورت رہی ہے، لیکن ہمارا معاشرہ تو خواتین کی صلاحیتوں کو تسلیم نہیں کرتا؟

ج: دراصل اردو لٹریچر میں عورت کو بڑا مظلوم بتایا گیا ہےکہ اُس کے ساتھ ظلم بھی ہوتا ہے، مرد دوسری شادی کرلیتے ہیں۔ اِدھر اُدھر جاتے رہتے ہیں، لیکن عورت اتنی اچھی فطرت کی ہوتی ہے کہ اس کے پائوں دباتی ہے، اسے کھانا لاکر دیتی ہے۔ ضرورت پڑے تو اس کی سوکن کو بھی کھانا بھجواتی ہے، تو عورت تو بڑی عظیم ہے۔ میں امّاں سے کہا کرتی تھی کہ ’’یہ تو بہت غلط ہے کہ وہ مار کھارہی ہے، اور سب اسے عظیم کہہ رہے ہیں، تو عظمت کا یہ تاج اس کے سر پر کس نے رکھ دیا؟‘‘ امّاں ہنس کے ٹال دیتی تھیں کہ ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گا، جب بڑی ہوگی تو سمجھ میں آجائے گا۔ لیکن جوں جوں بڑی ہوتی گئی، سوچ اور پختہ ہوگئی۔ مجھے لگا کہ یہ بات غلط ہے۔ عورت کو اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ اپنی شخصیت سے ثابت کردے کہ ’’میں بھی کچھ ہوں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے۔ بس، دونوں کو الگ الگ ذمّے داریاں دی گئی ہیں۔ اور اگر دونوں اپنی اپنی ذمّے داریاں بہ حسن و خوبی نبھائیں، تو کوئی مسئلہ ہی پیدا نہ ہو۔

امّاں کی نصیحت گرہ سے باندھ رکھی ہے

بچپن میں ماموں کا ایک بیٹا بھی ہمارے ساتھ ہی رہتا تھا۔ ماموں نے دوسری شادی کرلی تھی، تو امّاں نے اسے اپنے ساتھ رکھ لیا۔ وہ بہت شیطان تھا، بلکہ اگر آپ نے ’’شہ زوری‘‘ دیکھا ہے، تو اس میں ایک کیریکٹر آفاق بھائی کا تھا، وہ میں نے اُسی کو دیکھ کر لکھا تھا۔ ایک روز باہر گلی سے کوئی بارات گزر رہی تھی، تو آفاق نے مجھ سے اور چھوٹی بہن سے کہا کہ ’’چلو، چل کر دیکھتے ہیں۔‘‘ نیچے گئے، تو سکّے لٹائے جارہے تھے، اُس زمانے میں بارات پر پیسے پھینکنے کا رواج تھا۔ آفاق نے دیکھا، تو دوڑ کر دو تین سکّے اٹھالیے، اس کی دیکھادیکھی ہم نے بھی چند سکّے اٹھالیے اور پھر سب پیسے اکٹھے کرکے قلفی خریدی اور مزے سے کھاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے، امّاں نے ہمیں قلفی کھاتے دیکھ کر پوچھا کہ ’’پیسے کہاں سے آئے؟‘‘ تو ہم نے انہیں بتادیا کہ کس طرح بارات پر نچھاور کیے جانے والے پیسے لوٹے اور اس کی قلفی خریدی۔ امّاں نے اسی وقت ہم تینوں سے قلفیاں چھینیں اور بالکنی سے نیچے پھینک دیں اور پھر سختی سے نصیحت کی کہ خبردار،آئندہ سڑک پر چاہے کچھ بھی نظر آئے، کبھی نہیں اٹھانا۔ آپ یقین کیجیے، مَیں نے آج تک اُن کی یہ بات گرہ سے باندھ رکھی ہے۔

شہریت کی پیش کش،دلیپ کمارکی تعریف

ممبئی میں ایک پریس کانفرنس میں مجھ سےکہا گیا کہ ’’ہمارے پاس ٹیکنالوجی اچھی ہے، ڈائریکٹرز بہت اچھے ہیں، لیکن رائٹرز کا فقدان ہے، تو آپ ایسا کیوں نہیں کرتیں کہ بھارتی شہریت لے لیں اور یہیں منتقل ہوجائیں؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’دیکھیے، میری شہریت پاکستان کی ہے، وہ میرا اپنا ملک ہے، اس ملک نے مجھے شناخت ایک نام ، مقام دیا ہے اورمیں اپنا ملک کسی صورت اسے نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘ اصل میں وہاں ہندی کا مسئلہ ہے، اچھی اردو لکھنے والے کم ہیں۔ بس، گل زار صاحب اور جاوید اختر لکھ لیتے ہیں۔ اسی دوران ممبئی میں راجندر کمار کی بیٹی اور دھرمیندر کے بیٹے کی شادی میں بھی ہمیں مدعوکیا گیا، وہاں انڈسٹری کے تقریباً سب ہی فلمی ستارے موجود تھے۔ دھرمیندر نے فرداً فرداً سب سے ہماری ملاقات کروائی۔ اس وقت تک وہاں کے لوگ پاکستان اور پاکستانی ڈراموں کا سن کر بہت خوش ہوتے تھے۔ دلیپ کمار کا ایک جملہ میں کبھی نہیں بھولتی، انہوں نے کہا تھا کہ ’’بی بی! میں نے آپ کا ڈراما ’’اَن کہی‘‘ ایک رات میں بغیر پلک جھپکائے دیکھا۔‘‘ اس میں تھوڑا سا مبالغہ ضرور ہوگا، لیکن ان کا یہ کہنا بھی بڑی بات تھی۔                    

تازہ ترین