• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات گئے میز کے گرد ہم پانچ افراد بیٹھے تھے۔ میرے علاوہ باقی سب نوجوان تھے۔ ایک نوجوان نئے گلوکاروں کی طرز پر آلتی پالتی مارے اپنے سیل فون سے کھیل رہا تھا۔ دوسرا فلاسفر سگریٹ سلگائے ہوئے کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ تیسرا مشرق اور مغرب کی کشمکش لیے گہری سوچ میں مبتلا تھا۔ چوتھا عثمان بزدار کی طرح تھا مگر لکھ رہا تھا اور میں پانچویں درویش کی طرح اس سوچ میں مبتلا تھا کہ ہماری نئی نسل اپنی روایات سے کتنی دور ہے۔ میرے گرد بیٹھے ہوئے تین نوجوانوں نے مغربی لباس زیب ِ تن کر رکھا تھا کیا مغرب کا غلبہ ہے، ہمارے جوانوں کے جسموں سے چپک گیا ہے۔ ستر سال بعد بھی غلامانہ سوچیں جسموں سے عیاں ہیں۔ میں اسی سوچ میں گم تھا کہ مجھے آج دوپہر کو ملنے والا شہزاد سلیم بہت یاد آرہا تھا۔ جی ہاں، وہی شہزاد سلیم جس کو لوگ ڈی جی نیب لاہور کے طور پر جانتے ہیں۔ جو بہت سے لٹیروں کیلئے خوف کی علامت بنا ہوا ہے۔ شہزاد سلیم کمال کا آدمی ہے۔ اس کا چہرہ، اس کے خیالات، اس کی سوچیں، اس کے سارے روپ ایک سچے پاکستانی کے عکاس ہیں۔ میں جب دوپہر کو اپنے دو ساتھیوں سمیت ان کے دفتر میں داخل ہوا تو مجھے اس وسیع و عریض دفتر کو دیکھ کر ایسا لگا جیسے میں کسی اور ملک کے دفتر میں آگیا ہوں۔ چونکہ اس دفتر کو دیکھ کر ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ والی تلقین یاد آ جاتی ہے۔ مجھے مزید حیرت اس وقت ہوئی جب میں نے سرسبز آنگن میں چند چمکتی کرسیاں دیکھیں۔ انہی کرسیوں میں سے ایک کرسی پر شہزاد سلیم تشریف فرما تھے۔ مجھے پرانے وقتوں کے ماسٹر صاحب یاد آگئے جو اسی طرح سرد موسم میں دھوپ میں بیٹھ کر پڑھایا کرتے تھے۔ اس وقت تعلیم تجارت نہیں بنی تھی۔ اس وقت استاد کا احترام بھی تھا اور استاد بھی تمام طالب علموں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے۔ میں نے ہاتھ ملاتے ہی شہزاد سلیم سے کہا کہ میری بھی یہی عادت ہے۔ میں بھی سردیوں کے موسم میں اپنا دفتر دھوپ میں لگاتا ہوں۔ دھوپ سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔

گفتگو شروع ہوئی تو شہزاد سلیم نے اپنے بارے میں کچھ باتیں بتانے کے بعد احتساب کی کچھ باتیں شروع کر دیں۔ مثلاً احتساب کیسے ہو رہا ہے، احتساب کیوں ضروری ہے، احتساب سے کون سے لوگ خوف زدہ ہیں اور قومی احتساب بیورو نے اب تک قوم کو کتنی ریکوری کر کے دی ہے۔ جب شہزاد سلیم گفتگو کر رہے تھے تو انہی لمحوں میں ایک سچا اور پکا پاکستانی ان کے چہرے سے عیاں ہو رہا تھا۔ چونکہ ان کی گفتگو کے دوران دل اور زبان میں کہیں فاصلے نظر نہیں آئے۔ جب کوئی دل سے بول رہا ہو تو وہ دلوں پر اثر کرتا ہے، دلوں کو مسحور کرتا ہے۔ اب آجایئے ذرا اس طرف کہ کون سے لوگ نیب سے خوف زدہ ہیں۔ تو بقول فواد چوہدری ’’جنہاں نیں کھادیاں گاجراں، ڈھڈانہاں دے پیڑ‘‘۔ صاف ظاہر ہے نیب سے لٹیروں کو خوف آتا ہے، چور ڈرتے ہیں اور ڈاکوؤں کی جان جاتی ہے۔ شہزاد سلیم سے گفتگو کے دوران کئی باتیں زیرِ بحث آئیں۔ موضوعات پہلو بدل رہے تھے اور ان پہلو بدلتے ہوئے موضوعات میں سعید قاضی کوئی نہ کوئی لقمہ ضرور دیتے۔ ہمارے راوین جیو کے بیورو چیف رئیس انصاری نے بہت عمدہ بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ استاد کا احترام کرنا چاہیے، مگر جب استاد جرم کرے تو اس کی سزا بھی ڈبل ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ استاد کو سب عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سب اساتذہ کا احترام کرتے ہیں۔ یہاں پلی بارگین سمیت نیب کی طرف سے ہراساں کیے جانے پر بھی سوالات ہوئے۔ تمام تر تیکھے سوالات کے باوجود شہزاد سلیم نے بڑے تحمل سے جواب دیئے۔ انہوں نے کہا ہاں ہم پلی بارگین اس لیے کرتے ہیں کہ یہ قوم کا حق ہے کیونکہ اس کا قومی خزانے کو فائدہ ہے۔ جو بھی پلی بارگین کرنا چاہے ہم اس سے کرتے ہیں۔ اس میں کوئی تفریق نہیں، کوئی تقسم نہیں، کوئی تخصیص نہیں۔ ہمیں کسی کی سیاسی وابستگیوں سے کیا لینا، ہمیں کسی کی ذات پات یا فرقے سے کوئی غرض نہیں۔ ہماری پہلی محبت پاکستان ہے۔ اسی محبت کی بنیاد پر میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارا ادارہ قوم کو لوٹنے والوں کا احتساب کر رہا ہے۔ ہم سے خوف زدہ لوگ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ لٹیروں کے خلاف ہماری کارروائیوں کو سیاست کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ ہمیں سیاست سے کیا لینا۔ ہمارا تو ہر وہ شخص مجرم ہے جس نے قوم کو لوٹا، جس نے پاکستان کی بربادیوں میں حصہ ڈالا، جس نے حلال چھوڑ کو حرام کو اپنایا۔ ایسے ہی لوگوں میں خوف کی لہر ہے۔ ان کی لوٹ مار ان کو بے چین کیے رکھتی ہے۔ ایک ہم ہیں کہ ہمیں لٹیروں سے حساب لینے کا عمل بے چین کیے رکھتا ہے۔ ہمیں صرف خدا کا خوف ہے کسی اور کا کوئی ڈر نہیں۔ ہم اپنے ضمیر کے قیدی ہیں اور جن کو ہم پکڑتے ہیں وہ قوم کے مجرم ہیں۔ دراصل یہی لٹیرے یہی پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ نیب لوگوں کو ہراساں کرتا ہے حالانکہ ہم ایسے لوگوں کو اس وقت تک فون بھی نہیں کرتے جب تک ان کے خلاف ثبوت نہ ہوں۔

نیب کے خلاف پروپیگنڈہ مہم کو ہوا دینے میں ان سیاست دانوں کا بڑا کردار ہے جنہوں نے ملکی خزانے کو بے دریغ لوٹا، جنہوں نے ہیرا پھیریاں کیں۔ یہی لوٹ مار کرنے والے سیاست دان میڈیا میں بیٹھے ہوئے اپنے چند دوستوں کے ذریعے پروپیگنڈا مہم کو تیز کرتے ہیں۔ مگر ہمیں کوئی پروپیگنڈا مہم اپنے کام سے نہیں روک سکتی ۔ گفتگو اختتامی لمحات کو چھو رہی تھی کہ نیب لاہور کے ہنستے مسکراتے پی آر او ذیشان اور نیب کا ایک اور افسر چوہدری اصغر علی ہمیں سرسبز لان میں سے ایک اور بلڈنگ کی طرف لے گئے۔ اس خوبصورت عمارت میں اعلیٰ صفائی ستھرائی، سامنے سبزا بچھا ہوا اور اس کے کاریڈور میں چمکتے ہوئے ہیٹرز اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ ملزمان کیلئے تمام سہولیات کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ ہم اس سیل میں داخل ہو رہے تھے جسے نیب کو بدنام کرنے والے عقوبت خانہ کہتے ہیں۔ یہاں کچھ سیاسی لوگ بھی تھے مگر یہاں کے حالات کی عکاسی یہیں پہ بند ایک سابق ڈی پی او نے کر دی۔ رائے اعجاز کہہ رہے تھے کہ میں بطور پولیس آفیسر اقرار کرتا ہوں کہ ہماری پولیس کی حوالات اور نیب کے سیل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہماری حوالات انتہائی گندی اور سہولیات سے محروم ہوتی ہے۔ یہاں کے سیل کی سہولیات رحمت بنی ہوئی ہیں۔ میرے بائیں ہاتھ پہ بیٹھے ہوئے خالد کھوسہ کو دیکھ کر مجھے محسن نقوی کا شعر یاد آرہا ہے کہ

اس رات دیر تک وہ رہا محوِ گفتگو

مصروف میں بھی کم تھا، فراغت اسے بھی تھی

تازہ ترین