• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈبل ٹیکس معاہدے کی جلد تصدیق، کیا پاکستان، سوئٹزرلینڈ پر اثرانداز ہوا؟

اسلام آباد(انصار عباسی)ڈبل ٹیکس معاہدے کی جلد تصدیق‘کیا پاکستان ،سوئٹزرلینڈ پر اثرانداز ہوا؟اس حوالے سے سوئس حکام کا کہنا تھا کہ معاہدہ سوئس آئین کے مروجہ طریقہ کار پر عمل درآمد کرکے انجام پایا۔تفصیلات کے مطابق،سوئٹزرلینڈ نے پی ٹی آئی حکومت کی ان کوششوں کو تسلیم نہیں کیا ہے جس کا دعویٰ وہ کررہے تھے کہ پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان ’’ڈبل ٹیکس معاہدہ‘‘طے پاگیا ہے اور پاکستان نے اس کی تصدیق کی تھی۔تاہم، پی ٹی آئی حکومت کو اصرار ہے کہ نئی حکومت کے پہلے کابینہ اجلاس میں متعلقہ حکام کو ہدایات دی گئیں کہ وہ جلد از جلد سوئٹزرلینڈ کے ساتھ معاملات آگے بڑھائیں تاکہ قوم کی لوٹی گئی دولت جلد از جلد واپس لائی جاسکے۔دی نیوز نے جب متعلقہ سوئس حکام سےرابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ نیا ڈبل ٹیکس معاہدہ سوئس آئین کے مروجہ طریقہ کار پر عمل درآمد کرکے انجام پایا۔پاکستان نے معاہدے پرن لیگ کے دور حکومت میں 2017میں دستخط اور توثیق کی تھی ، تاہم سوئٹزرلینڈ نے اس کی توثیق پی ٹی آئی حکومت کے موجودہ دور میں 29نومبر،2018 میں کی۔حکومت کے کچھ اعلیٰ عہدیداران نے حال ہی میں گزشتہ حکومت کو معاہدےکو حتمی شکل دینے میں تاخیر کا ذمہ دار ٹھہرایا ہےاور اس معاہدے کی تکمیل کے لیے سوئس حکام کو منانے کا کریڈٹ لیا ہے۔اس نمائندے نے سوئس دوطرفہ ٹیکس مسائل اور ڈبل ٹیکس معاہدے سیکشن ، اسٹیٹ سیکرٹریٹ برائے انٹرنیشنل فنانس (ایس آئی ایف)سےرابطہ کیا تاکہ یہ تصدیق کی جاسکے کہ پی ٹی آئی حکومت نے وہ کونسی خصوصی کوششیں کی ہیں ، جس کے ذریعے سوئٹزرلینڈ سے معاہدے کو حتمی شکل دلوائی گئی۔پا کستا ن کے برعکس جہاں کابینہ اس طرح کے معاہدوں کی تصدیق کرتی ہے، سوئٹزر لینڈ میں دو طرفہ معاہدوں کے لیے سوئس پارلیمان کے دونوں چیمبروں سے اس کی منظوری لی جاتی ہے۔سوئس حکام کے مطابق، ان کے ملک نے پاکستان کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے معمول کے طریقہ کار پر عمل کیا۔سوئس حکام کو دو سوالات بھجوائے گئے تھے ۔وہ سوالات اور ان کے جوابات اس طرح سے تھے۔ پاکستان نے معاہد ے پر دستخط اور اس کی تصدیق 2017میں کی تھی لیکن سوئس حکام نے اس میں اتنا وقت کیوں لیا؟جواب میں بتایا گیا کہ سوئس آئین کے مطابق، ڈبل ٹیکس معاہدے کی منظوری پارلیمنٹ کے دونوں چیمبرز سے لازمی لینی تھی۔پا رلیمنٹ کا اجلاس سال میں چار مرتبہ ہوتا ہے۔ پارلیمانی منظوری کے بعد 100روز کی ریفرنڈم مدت لازمی ختم کرنا ہوتی ہے۔اس عمل میں وقت لگتا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ نیا ڈبل ٹیکس معاہدہ اچھی طرح انجام پایا۔پارلیمنٹ کے دونوں چیمبرز نےمباحثے کے پہلے ہی مرحلے میں معاہدے کی منظوری دے دی اور کوئی ریفرنڈم نہیں کرایا گیا۔دوسرا سوال یہ تھا کہ ایک پاکستانی عہدیدار نے دعویٰ کیا تھا کہ سوئٹزر لینڈ میں معاہدے کی منظوری کا عمل اسلام آباد کی موجودہ حکومت کی وجہ سے تیز ہوا۔کیا آپ اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ یہ سوئٹزر لینڈ کی جانب سے منظوری کا عمل معمول کے مطابق ہوا یا پھر حکومت پاکستان کی حالیہ درخواستوں کے باعث اس میں تیزی آئی؟اس کے جواب میں بتایا گیا کہ پاکستان کے ساتھ نئے ڈبل ٹیکس معاہدے کی تصدیق سوئس آئینی قوانین پر عمل درآمد کرکے کی گئی۔اس ضمن میں جب حکومتی عہدیدار سے رابطہ کیا گیا اور انہیں سوئس حکام کے جواب سے متعلق بتایا گیا تو انہوں نے اصرارکیا کہ سوئٹزر لینڈ سے معاہدے کی جلد تصدیق کے لیے بہت کوششیں کی گئی تھیں۔تاہم ، ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر اس طرح کی کوششیں ذاتی اور زبانی درخواستوں کے ذریعے کی جاتی ہیں اس لیے سرکاری طور پر ان کا ریکارڈ نہیں ہوتا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنے پہلے کابینہ اجلاس میں متعلقہ حکام کو ہدایات دی ہیں کہ وہ جلد از جلد سوئٹزرلینڈ کے ساتھ معاملات آگے بڑھائیں تاکہ معاہدے کو جلد از جلد حتمی شکل دی جاسکے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے سوئس حکام سے فوری رابطہ کیا گیا تاکہ ان کی جانب سے معاہدے کی تصدیق ہوسکے۔اس اخبار کے انکشاف کے بعد کہ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے 26ممالک کے ساتھ بیرون ممالک میں پاکستانیوں کی مخفی دولت سے متعلق معلومات کے تبادلے کے معاہد ے پر دستخط کیے ہیں،موجودہ حکومت نے سوئٹزر لینڈ سے معاہد ے کی تصدیق کا کریڈٹ لینا شروع کردیا۔ مختلف ٹی وی چینلوں میں حکومتی عہدیدا رو ں نے اپنے انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد 26 ممالک کے ساتھ پاکستانیوں کی بیرون ممالک مخفی دولت کی معلومات کے تبادلے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں ۔اس اخبار نے بعد ازاں خبر دی کہ کسی ایک معاہدے پر بھی کسی بھی ملک کے ساتھ موجودہ حکومت نے دستخط نہیں کیے ہیں۔اس کے بجائے بیرون ملک پاکستانیوں کی دولت سے متعلق معلومات پاکستان میں عالمی کنونشن کے بعد سے آنا شروع ہوگئی تھیں ، جس پر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 2016 میں دستخط کیے تھے۔یہ کنونشن رواں برس ستمبر سے موثر ہوا ہے ، جیسا کہ پہلے اتفاق کیا گیا تھا۔دی نیوز کی خبر سے متعلق پی ٹی آئی رہنما افتخار درانی کا کہنا تھا کہ حکومت کو خبر کی سرخی کے باعث تکلیف پہنچی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس نمائندے کے خلاف پریس کونسل آف پاکستان سے رابطہ کرے گی ۔ان کا کہنا تھا کہ میڈیا مسئلے کو سمجھنے میں ناکام رہا ہےاور انہوں نے اصرار کیا کہ اس ضمن میں ہرکام پی ٹی آئی کے موجودہ دور حکومت میں ہوا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ صحافیوں کو اس مسئلے کو سمجھنے میں سخت مشکلات ہورہی ہیں۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس ضمن میں عملی کام کا آغاز پی ٹی آئی دور حکومت میں شروع ہوا تھا۔

تازہ ترین