• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہباز شریف نے کہا ہے: ہم قوم کی بیٹیوں کو آگے لائیں گے۔ زر بابا چالیس چوروں نے خزانہ لوٹا، بعض لوگ خواتین کی نشستیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔
ہماری ایک گزارش ہے کہ محترم وزیر اعلیٰ تاریخ کو تاریخ ہی رہنے دیں، پرانی مائیتھالوجی کو نہ بدلیں، وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ چوروں کے ساتھ ایک بابا بھی تھا جو ان کا سردا رتھا جبکہ بابا تو ان چوروں کا سخت مخالف تھا اور بالآخر اس نے اس گروہ کو ہی ختم کر دیا تھا اگر زر بابا سے ان کی مراد زرداری ہیں تو یہ کہنے میں کوئی مناسبت نہیں، بہتر ہو گا کہ وہ خود علی بابا کا کردار ادا کریں اور چالیس چوروں کو موروں سے ٹکرا دیں، اور لوگ کہہ اٹھیں چوراں نوں پے گئے مور، میاں صاحب کی کارکردگی عمدہ ہے، وہ انتھک ہیں لیکن بعض اوقات بلاوجہ بھی خود کو تھکاتے ہیں ہمیں ان کی صحت کی فکر رہتی ہے، بسا اوقات تقریر دلپذیر کے دوران ہم نے دیکھا
نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں
خواتین کو ضرور آگے لائیں آگے لگائیں نہیں، اور یہ اعلان کیوں نہیں کرتے کہ اسمبلیوں تک پہنچنے کے لئے مخصوص نشستوں کی قید نہ ہو گی، اچھے محب وطن اور کارکن خواتین و حضرات سب کے لئے صلائے عام ہو گی، یہ جو مردوزن کی تفریق کا فوبیا ہے، یہ حقوقِ نسواں تلف کرنے کا موجب بن جاتا ہے، ہر میدان میں باصلاحیت پاکستانیوں کو آگے آنے دیں چاہے وہ حضرات ہوں یا خواتین، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خواتین کو اتنا آگے لایا جائے کہ بقول اکبر
نہ خاتون میں رہ جائے گی پردے کی یہ پابندی
نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجبِ روئے صنم ہوں گے
####
رحمن ملک نے کہا ہے: صدر زرداری اور میرے درمیان اختلافات کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ جس نے بھی یہ افواہ اڑائی ہے بڑا بریک تھرو مارا ہے، بھلا جنہیں ہم من شدی من تو شدم (تو میرا میں تیرا) کے حوالے سے جانتے ہیں، وہ جوڑی کیسے اختلافات کا شکار ہو سکتی ہے، اور اگر کوئی چھوٹا موٹا اختلاف ہو گا بھی تو کوئی ڈالروں کا ”رولا“ ہو گا، امریکہ کسی دن اپنے ان دو پیاروں کے اس اختلاف کو بھی مٹا دے گا، باقی کوئی اختلاف تو ہو نہیں سکتا، زرداری حسن پرست بھی نہیں کہ کہیں رقابت کا شوشہ اٹھ کھڑا ہو۔
البتہ رحمن ملک میں بیک وقت زرداری کی اور اپنی ذاتی خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں، لیکن اس پر ملک صاحب کا کسی اور سے اختلاف ہو سکتا ہے گنبد زر کے مکیں سے نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں
جب بھی کبھی عروج کی ابھری ہیں خواہشیں
ہم نے بھی اپنا آپ ”منانے“ کی سوچ لی
پیپلز پارٹی کے پیپل تلے پہلے ہی چھاؤں گھٹتی جا رہی ہے، شاید کہ پت جھڑ کا موسم آ گیا ہے، لیکن ہماری درخواست ہے، کہ دو محترم شخصیتیں افواہوں کی پرواہ نہ کریں ایک عدد جپھی نما تصویر کھنچوا لیں تاکہ سازشیوں کو معلوم ہو کہ
مدعی لاکھ برا چاہے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کی ایک بڑی سیاسی پارٹی ہے، اسے اپنے بنیادی منشور پر عمل کرنا ہو گا، تاکہ گزشتہ پانچ برس جس ”خوش اسلوبی“ سے گزارے اسی ”خوش اسلوبی“ کے ساتھ وہ انتخابات جیتنے کی صورت میں دوبارہ پورے کر سکے۔
رحمن ملک جو بھی ہیں، نہ جانے کیوں اچھے لگتے ہیں شاید یہ جملہ ہمارے علاوہ کسی اور نے بھی ان سے کہا ہو اور وہ لاج کے مارے ظاہر نہ کرتے ہوں۔
####
چوہدری نثار کا کہنا ہے: طالبان پاکستان کے بارے نیک جذبات رکھتے ہیں۔
ایک عرصے تک چوہدری نثار بہت دور کی کوڑیاں لاتے رہے، لیکن اب ان کی قریب کی نظر ٹھیک ہو گئی ہے، اور انہوں نے ایک نیک بیان دیا کہ طالبان پاکستان کے بارے نیک جذبات رکھتے ہیں، طالبان کو کوئی بھی برا نہیں کہتا یہاں تک کہ اب تو امریکہ بھی ان کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے، وہ اس بات کی بھی تحقیق کر کے قوم کو بتائیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں جو بھی دہشت گردی ہوتی ہے،
اگلے دن خبر آ جاتی ہے کہ طالبانِ افغانستا ن یا پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ یہ معاملہ واقعتا تحقیق طلب ہے، تاکہ اصل حقیقت سامنے آجائے، کہیں چوہدری صاحب انتخابات قریب آنے کے باعث طالبان کی ہمدردیاں تو حاصل نہیں کرنا چاہتے؟ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن آخر دل میں سوال اٹھنے پر کون قابو پا سکتا ہے سو باتوں کی ایک ہی بات کہ اس خطے میں امن قائم کرنا اب موت و حیات کا مسئلہ بن چکا ہے، اور ایسی تدبیر کی جائے کہ پاکستان، بھارت، افغانستان، ایران اور شمالی ریاستیں مل بیٹھ کر بات چیت کریں، اور طالبان کے تمام گروہ بھی اس میں شامل ہوں یہ دہشت گردی کسی کا تنکا بھی باقی نہ چھوڑے گی، پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں بھی اپنے طور پر آپس میں مذاکرات کر کے امن و امان بہرصورت واپس لانے کی سوچیں، بصورت دیگر شر پسند ی جیت جائے گی اور یہ ملک انتہائی غیر محفوظ ہو جائے گا اور اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ امریکہ کو بھی دعوت دی جائے، اور محض انسانیت نوازی و دوستی کو اجاگر کرتے ہوئے منہ سے بات کی جائے بندوق کی نالی سے نہیں۔ یہ جو حالات کراچی، بلوچستان میں ہیں، کیا اہل گلشن کو اس کی کوئی فکر نہیں حالات مخدوش ہیں۔ مداوا ضروری ہے
چمن پہ غارتِ گل چیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے
####
بدھ کے روز پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں وفاقی وزراء کے خلاف قومی اسمبلی کا ایوان پھٹ پڑا، حکومتی کارکردگی کو لگاتار ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے، وقفہ سوالات میں ارکان کے سوالات کا جواب دینے کے لئے متعلقہ وزراء غائب پائے گئے۔
ویسے اگر وزراء صرف میاں محمد بخش کا یہ شعر ہی کورس میں گنگنا دیتے تو سارے سوالات کا جواب مل جاتا
”ڈاہڈے“ دے ہتھ قلم محمد تے وس نئیں کوئی چلنا
لسِے دا کی زور محمد نس جانا یا رونا
اب کہئے وزراء بھاگ نہ کھڑے ہوتے تو کیا کرتے، تھوڑا سا ترس کا مادہ بھی دونوں ایوانوں میں ہونا چاہئے، تاکہ یہ بیچارے بے بس، وزیر کم از کم لوگوں کے دروازوں پر جانے کے قابل تو رہ جاتے، اور ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ کہتے
عرض نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں جب بھی گھر میں کوئی شادی کا فنکشن ہوتا اور ہم دولہا میاں پر پیسے نچھاور کرتے تو بڑی چابکدستی سے سارے پیسے خود ہی چن لیتے، بلکہ جو دوسروں نے پھینکے ہوتے وہ بھی ہاتھ کر لیتے، بس ایسی ہی حُسنِ کارکردگی رہی ان پانچ برسوں میں کہ اس گڈ گورننس کی بھی اب برسی منانا پڑے گی، ویسے سوالات کی بوچھاڑ کرنے والوں سے بھی کوئی پوچھے کہ حضور اتنی دیر سے دونوں ایوان کیوں پھٹ پڑے، یہ کام تو ولادت ہی سے شروع کرنا چاہئے تھا وفات پر ایسی دھما چوکڑی کچھ مناسب نہ تھی اور عوامی حکومت کے عوام 2007 کے انتخابات کے لئے کنویسنگ کو یاد کر کے یوں کہتے ہیں
کون رویا تھا گلے مل کے ہمیں
وہ کرم تھا کہ ستم یاد نہیں
تازہ ترین