• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی حکومت نے اپنے بدترین طرز حکومت سے عوامی خدمات کے قومی اداروں کی تباہی کے علاوہ کئی ایسے انتظامی مسائل بھی پیدا کردئیے ہیں جو کبھی تھے نہ ہوتے۔ ان میں سے ایک اعلیٰ تعلیم و تحقیق کی مرکزیت کو ختم کرنے کا تنازعہ بھی ہے۔ اسے وقتاً فوقتاً بار بار اٹھایا جارہا ہے۔ اب اس میں صوبائی حکومتیں(بلکہ صوبوں میں اثر رکھنے والی سیاسی قوتیں بھی منہ ماررہی ہیں) بدقسمتی سے اس میں ”بہتر طرز حکومت“ کی شہرت رکھنے والا صوبہ پنجاب پیش پیش ہے جب سابقہ نیم جمہوری مشرف دور میں پاکستان میں پہلی بار ہائر ایجوکیشن کا شعبہ پہلی مرتبہ حکومتی ترجیح میں شامل ہوا اور بڑی تیزی سے ملک بھر کے بڑے اضلاع میں پبلک یونیورسٹیوں کا قیام شروع ہونے کے علاوہ اعلیٰ معیاری کی بڑی بڑی پرائیویٹ یونیورسٹیاں بھی وجود میں آئیں ، سب سے بڑھ کر تحقیق کا میدان کشادہ ہوتا گیا اور سرگرم بھی، نتیجتاً سالانہ پی ایچ ڈی سکالرز تیار ہونے کی تعداد میں مسلسل اضافہ جاری رہا جس کے خوش گوار اثرات اب تک باقی ہیں۔ گورفتار اب وہ نہیں ہی ،ایک تو معیار قائم ہوگیا، دوسرے تحقیقی سرگرمیوں میں نیم جمودی کیفیت ختم ہوگئی جب پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمن کی سرکردگی میں ایچ ای سی دن بدن تیزی سے ترقی کررہا تھا اس وقت بھی اضلاع میں بننے والی پبلک یونیورسٹیوں میں ایم این ایز اور ایم پی ایز ان نومولود یونیورسٹیوں کو اپنا ووٹ بنک بڑھانے اور پکا رکھنے کا ایک اور ذریعہ سمجھنے لگے تھے۔ وائس چانسلر صاحبان پر اساتذہ کی تقرریاں اقرباء پروری کی بنیاد پرکرنے کا دباؤ ڈالا جانے لگا۔ ملازمین کی بھرتی کے لئے تو پریشر بہت زیادہ ہوتا اور اوپر کی سطح سے بھی ہونے لگا جس کے دیکھا دیکھی نئی یونیورسٹیوں میں بیوروکریسی نے بھی اپنی جگہ بنانے کی کوششیں جاری رکھیں لیکن ایچ ای سی اور ملک گیر سطح پر اساتذہ کی تعلیم و تحقیق پر یکساں سوچ ہی نہیں اتحاد نے نئی پبلک جامعات میں اس درجے کی مداخلت کو روکے رکھا جو وہ مختلف شعبوں میں بآسانی کرلیتے ہیں یا اگر چاہیں سو کرسکتے ہیں۔
اس وقت نیم فوجی یا نیم جمہوری حکومت کی کچھ منفی لچک کے باعث سیاسی صوبائی حکومتیں بالآخر اپنے اس مکروہ ارادے میں کامیاب ہوگئیں کہ وہ (ایچ ای سی کے اصل کاموں میں مداخلت کئے بغیر) وائس چانسلر صاحبان یا یونیورسٹی انتظامیہ کے روایتی انتظامی ذہنیت کے حامل افسران اورکارندوں کو دباؤ میں لاکر بی اے کی جعلی ڈگریاں تیار کرواسکیں۔ یوں شدید انتخابی اور سیاسی فضاء میں خالصتاً روایتی سیاسی دباؤ یا رشوت خوری سے یونیورسٹیوں کی بہتر ہوتی کارکردگی کو متاثر کیا گیا۔ موجودہ حکومت کی تشکیل کے بعد ہائر ایجوکیشن کے لئے حکومتی ترجیح کو بیک گیئر لگا اور یہ بڑی تیزی سے اپنے فروغ سے محروم ہونے لگی اور تو اور18ترمیم کی آڑ میں منظور بل کے متعلقہ سیکشن کی من گھڑت تشریح کرکے وفاقی حکومت ہائر ایجوکیشن، تحقیق اور سائنس کے انتظامی قومی ڈھانچے پر حملہ آور ہوئی ،دنیا بھر میں اس مرکزی ،وفاقی اور قومی موضوع کو صوبائی تحویل میں دینے کی ساز باز ہوئی جس میں انتظامی اختیارات کی زیادہ سے زیادہ ہوس میں ہر وقت مبتلا بیوروکریسی بدترین طرز حکومت سے لاپروا ہو کر کرپٹ حکومت کی ہمنوا بننے لگی۔ خود ہائر ایجوکیشن اور اس کی قومی چھتری میں جامعات موثر مزاحمت نہ کرتیں تو کھلنڈری حکومت کی طرف سے ایچ ای سی کو ریلوے اور پی آئی اے بنانے کے عمل کاآغاز ہوچکا تھا۔ تیزی سے ترقی کرتی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں سابق وزیر گیلانی کی بگڑی اولاد نے جو بگاڑ پیدا کیا وہ کہانی تو میڈیا میں آئی ہی نہیں، پھر جاتے جاتے وفاقی حکومت ایچ ای سی کے درپے ہے اور اس ”گنگا“ میں پنجاب حکومت بھی ہاتھ دھونے کے لئے بے چین معلوم دیتی ہے۔ پنجاب اسمبلی نے یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کرکے(3) 15کی شق ختم کرکے وائس چانسلر صاحبان کے جس انتظامی اختیار کو ختم کیا ہے۔ وہ یونیورسٹی کے تدریسی و تحقیقی عمل ،مالی اور انتظامی امور کو جلد جلد نمٹانے کی رفتار کو تو سست کرے گا ہی اس سے خود مختار یونیورسٹیوں میں بیوروکریسی اور سیاستدانوں اور ورکرز کی مداخلت کے راستے کھولے گا اگرچہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے وائس چانسلر صاحبان کے یونیورسٹی ایکٹ میں (3)15کی تنسیخ کا دفاع”چیک اینڈ بیلنس“ کے اصول کے اطلاق سے کرنے کی بات کی ہے لیکن ہمارے سیاستدان اور بیوروکریٹس خود ا س اصول کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور ان کے اس رویے میں ابھی کوئی ایسی انقلابی تبدیلی برپا نہیں ہوئی کہ وہ بیلنس کی طرف آئیں۔ وہ صرف چیکس چیکس پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ بھی اصلاح کے لئے نہیں بلکہ چیک کرتے کرتے ہی اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے حصول کے لئے ۔پھرچیک چیک رہتا ہے نہ بیلنس بیلنس۔ بس یونیورسٹی انتظامیہ بھی کرپٹ ہوتی ہوئی صوبائی حکومت کی اسیر ہوتی جائیں گی۔ نتیجتاً یونیورسٹیوں میں وہ دھما چوکڑی مچے گی جس کے دروازے بھٹو صاحب ہی نہیں پی پی کے ہر دور میں بھی بند رہے۔
یوں بھی انگریز جو یونیورسٹی ایکٹ بناگیا ہے جس میں سینٹ ،سینڈیکٹ ایکڈیمک کونسل، فنانس کمیٹی ،پرچیز کمیٹی، ایڈمیشن کمیٹی اور اب ڈاکٹریل پروگرام کمیٹی چیک کے لئے ہی ہیں۔ کوئی وی سی صاحبان مختار کل نہیں ہیں۔ اسی پس منظر میں جناب عطا الحق قاسمی نے ہر صوبے کا الگ ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ قاسمی صاحب کو خوب جاننے کے باعث میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ یہ تجویز انہوں نے مکمل خلوص نیت سے پیش کی ہے لیکن یہ کوتاہی بھی یقینا کرگئے کہ انہوں نے اپنی تجویز فقط موجودہ پنجاب حکومت کی قدرے گڈ گورننس سے متاثر ہوکر پیش کی ہے اور اس میں وہ ہائر ایجوکیشن کی بنیادی فلاسفی کو یکسر نظر انداز کرگئے جو یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کے ذریعے قومی نظریے و سلامتی جملہ قومی ضروریات ،قومی کلچر، قومی سیاست ،اقتصادیات ،ملکی سماج اور ملکی یکجہتی پھر بین الاقوامی تعلقات کو مستحکم کرنے اور ان کے فروغ کا مشترکہ ذریعہ ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اسی قومی دانش و تحقیق و سائنس کا منیجر ہے جو بہت ہی موثر انداز میں قومی یکجہتی کا مسلسل اور قطعی غیر سیاسی منبع ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ آج بھی (ہائر ایجوکیشن سے متعلق 18ویں ترمیم کے پیدا کردہ کنفیوژن کے باوجود) ہائر ایجوکیشن ہی قومی یکجہتی کی چھتری ہے۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ ہردوسرے سال اکٹھے ہو کر بیٹھتے ہیں۔ موجودہ قومی اور ظہور پذیر ملکی ضروریات کے محتاط اندازے لگاتے ہیں اور قومی سطح کا اعلیٰ تعلیم کا نصاب تیار کرتے ہیں جو ملک بھر کی پبلک یونیورسٹیوں میں اختیار کیا جاتا ہے۔ اس میں صوبائی یا مقامی ضروریات کے مطابق یہ لچک بھی رکھی جاتی ہے کہ پبلک یونیورسٹیاں اپنے اپنے کورسسز آفر کریں۔ یہ قومی دانش کے اہم فورم ہیں۔ ان کو صوبوں میں تقسیم کردینا قومی یکجہتی کے لئے یقینا بہت مہلک ہوگا۔ عطاء الحق قاسمی سے سوال ہے کہ ان کی تجویز عمل میں ڈھل گئی تو کیا پنجاب،سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی ایچ ای سیز پاکستان کی اپنی اپنی تاریخ و نظریہ نہیں پڑھائیں گے؟۔ فلسفہ سوشل سائنسز ، ادب و شاعری پر صوبائیت غالب نہیں آجائے گی؟ یہ ہوگیا تو ہماری اگلی تعلیم یافتہ نئی نسل کے سیاسی نظریات و مزاج کیا ہوں گے؟ یہ تو ایک پہلو ہے۔ مانا کہ پنجاب میں اقتدار کی اگلی دو تین باریاں بھی ن لیگ ہی لے گی، ایسے میں پنجاب کی اپنی خصوصاً دوسرے صوبوں کی پبلک یونیورسٹیوں میں عملی سیاست کے جو اثرات مرتب ہوں گے۔ اس میں غریب اور متوسط طبقے کے بچوں کی یہ یونیورسٹیاں تدریسی و انتظامی تباہی سے محفوظ رہ ہی نہیں سکتیں۔ شاید پنجاب میں کچھ کنٹرول ہوجائے جو کچھ دوسرے صوبوں میں ہوگا اس کون قابو کرے گا؟ یہ تباہی کا راستہ ہوگا۔ پنجاب کے دانشوروں کو ملک کی ہر یونیورسٹی اتنی ہی عزیز ہے جتنی ان کی اپنے صوبے کی۔ قومی سوچ کا تقاضہ تو یہی ہے ۔ سو جناب عطاء الحق قاسمی کی تجویز ان کی ا پنی سوچ سے متصادم ہے کہ ان کی قومی سوچ سے تو کوئی انکار کرے گا نہ اختلاف ۔امید ہے کہ وہ اپنی تجویز پرنظر ثانی کریں گے ۔
جہاں تک میاں شہباز شریف کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ انہوں نے”تعلیم کے شعبے میں انقلاب کی بنیاد رکھی دی نوجوان نسل ہمارے سفر کو آگے بڑھائیں “ بلا شبہ تعلیم کے شعبوں میں بھی ان کی کارکردگی دوسرے تینوں صوبوں سے بہتر ہے، خصوصاً دانش سکول پراجیکٹ اس پر وہ تعریف و تحسین کے مستحق ہیں لیکن اگر وہ لیپ ٹاپ کی تقسیم کو انقلاب کی بنیاد سمجھ رہے ہیں تو ایسا نہیں ہے۔ ان کا یہ اقدام بنیادی طور پر سیاسی ہی ہے اس سے بڑھ کر یہ اقبال کے فلسفہ خودی اور ترقی کے لئے "Capicity building"کی بجائے ڈلیور کرنے کی حوصلہ شکنی کی جدید اپروچ سے متصادم ہے تاہم ملک میں اوپر کے حکمرانوں نے جو لوٹ مار مچا رکھی ہے اور متوسط اور غریب کو جس حالت سے دو چار کردیا ہے اس میں لیپ ٹاپ کی تقسیم ٹھیک ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اب انہیں جیسے بھی ملے کچھ تو ملے۔ پھر ان اتنی تعداد میں اتنے نوجوانوں کے بہتر نیٹ یوزر بننے کے بہرحال بہتر نتائج نکلیں گے۔
تازہ ترین