• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے مسئلے پرگزشتہ تین ماہ سے جاری ڈیڈ لاک طویل بحث مباحثے اور تلخ نوائی کے بعد بمشکل ختم ہوا تھا کہ باقی پارلیمانی کمیٹیوں کی سربراہی کے معاملہ پر نیا تنازعہ پیدا ہو گیا ہے جس سے قانون سازی کا عمل پھر معطل ہوتادکھائی دے رہا ہے۔ حکومت اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو پی اے سی کا سربراہ بنانے کو تیار نہیں تھی جبکہ اپوزیشن کا اصرار تھا کہ سابقہ روایات کی روشنی میں انہیں چیئرمین بنایا جائے ۔وزیراعظم عمران خان کی ذاتی مداخلت سے یہ مسئلہ حل ہوا معاملہ اب آگے چلتا دکھائی دے رہا تھا کہ اپوزیشن نے غیر اہم کمیٹیوں کی سربراہی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور حکومت سے خزانہ، اقتصادی امور، داخلہ اور خارجہ امور سمیت اہم کمیٹیوں کی سربراہی مانگ لی ہے۔ قومی اسمبلی میں پارٹی تناسب سے طے ہوا تھا کہ 23کمیٹیوں کی سربراہی حکومتی پارٹی کو اور19کی اپوزیشن کو ملے گی اب جبکہ حکومت نے شماریات، سائنس و ٹیکنالوجی اور موسمی تغیرات جیسی کمیٹیوں کی چیئرمین شپ حزب اختلاف کی پارٹیوں کو پیش کی تو انہوں نے اسے مسترد کر دیا اور ان کمیٹیوں کا مطالبہ کر دیا جن پر حکومت اپنے نمائندوں کا تقرر چاہتی ہے۔ اس سے پارلیمنٹ میں اہم امور پر فیصلوں کا عمل ایک بار پھر غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو گیا ہے۔ ارکان اسمبلی کا چاہے حکمراں اتحاد سے تعلق ہو یا اپوزیشن سے، سب عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور عوام کی خواہش ہے کہ پارلیمانی عمل آئین اور قانون کے مطابق کسی تعطل کے بغیر چلتا رہے۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے رویوں میں لچک پیدا کریں اور افہام و تفہیم سے بلاتاخیر یہ مسئلہ حل کریں۔ نئی قومی اسمبلی قائم ہوئے چار ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ مگر قائمہ کمیٹیوں کا قیام تاخیر کا شکار ہونے کی وجہ سے کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی جبکہ ملک کو درپیش مسائل کی وجہ سے کئی معاملات پر پارلیمنٹ کے فیصلے ناگزیر ہو چکے ہیں۔ توقع ہے کہ فریقین قومی مفاد میں الجھے ہوئے معاملات کو جلد سلجھانے کی کوشش کریں گے۔

تازہ ترین