• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب کا معنی باز پرس ہے اور اس کا دائرہ کار پورے معاشرے پر محیط۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ کوئی بھی اپنے مقام و مرتبے یا اختیارات سے متجاوز نہ ہو اور اس سے کسی بھی نوع کی خیانت کا ارتکاب نہ ہونے پائے۔ جہاں تک وطن عزیز کا تعلق ہے یہاں خالص احتساب کا وصف پنپ نہ سکا البتہ اس کے نام پر سیاسی مخالفین کو رگیدنے کا عمل پورے شدومد سے جاری رہا جس سے یہ عمل گویا بے اعتبار سا ہو کر رہ گیا۔ سرِ دست صورتحال یہ ہے کہ حکومت بہرطور احتساب کی خواہاں اور اس پر عمل پیرا ہے جبکہ دوسری طرف سے یہ الزامات سامنے آ رہے ہیں کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ احتساب کے عمل اور ادارے پر بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ دریں حالات سامنے آیا ہے کہ پنجاب حکومت نے سرکاری افسران کے احتساب کے لئے نیا احتساب کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے آئندہ چند روز میں پنجاب اسمبلی میں آزاد کمیشن کے لئے بل پیش کیا جائے گا، کمیشن کا چیئرمین اسے مقرر کیا جائے گا جو ہائیکورٹ کا جج بننے کا اہل ہو گا، ممبران میں ایک گریڈ 20کا ریٹائرڈ سول سرونٹ اور دوسرا ممبر فنانشل مینجمنٹ کا ماہر ہو گا۔ کمیشن سزا کا تعین کرے گا جس کے تحت تنخواہ بھی کٹ سکتی ہے، کوئی بھی شہری کمیشن کو شکایت درج کروا سکے گا اور کمیشن اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والےپبلک آفس ہولڈرز کے خلاف تحقیقات کرے گا۔ عوامی حوالے سے دیکھا جائے تو احتساب کمیشن کا قیام ایک اہم پیش رفت دکھائی دیتا ہے کہ سرکاری محکموں سے جن کا واسطہ پڑتا ہے کسی شکایت پر ان کی داد رسی نہیں ہو پاتی۔ محکمہ پولیس اور دیگر حکام کی منہ زوری کے واقعات آئے روز میڈیا سامنے لاتا رہتا ہے۔ چنانچہ سرکاری افسران کے احتساب کے لئے احتساب کمیشن کا قیام ایک مستحسن فیصلہ قرار دیا جائے گا، مگر یہ ایسا جامع ہونا چاہئے کہ اس کی موجودگی میں سرکاری حکام اپنے اختیارات سے سرمو تجاوز کا سوچ بھی نہ سکیں۔ بلاشبہ قوانین سبھی اچھے ہوتے ہیں اصل بات ان کے نفاذ کی ہوتی ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین