نت نئی اصطلاحات لکھنے والوں کو اسلئے لُبھاتی ہیں کہ پڑھنے والے ایسی تراکیب کی مین اکاری سے بہت مرعوب ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ میں نے دفاعی تجزیہ نگار نہ ہونے کے باوجود ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کے نہایت حساس موضوع پر طبع آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ویسے بھی اس ملک میں ہر ایک اپنے کام سے زیادہ دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانے کو اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہے تو میں کیوں پیچھے رہوں۔اس سے ملتی جلتی اصطلاح میں نے لگ بھگ دس سال قبل تب سنی جب نیا لیپ ٹاپ خریدنے کی نوبت آئی۔بندہ ناچیز پینٹیئم کے دورمیں ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا مگر مارکیٹ جاکر معلوم ہوا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی زقندیں بھرتی برق رفتاری سے آگے ہی آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔جسے بھی لیپ ٹاپ دکھانے کو کہا جاتا ،وہ پوچھتا کس جنریشن اور کس کور کی مشین چاہئے؟جنریشن گیپ کے مارے لوگ کیا جانیں یہ کیا قصہ ہے۔ایک دوست سے رہنمائی کی استدعا کی تو اس نے بتایا کہ ہر جنریشن میں آئی ون سے لیکر آئی تھری (اب تو غالباً آئی ٹین بھی آگئی ہے)تک کے جدید لیپ ٹاپ دستیاب ہیں ۔جیسے پہلے کمپیوٹر میں پینٹیئم آتے تھے اسی طرح اب جنریشنز اور اس میں پھر اِنٹیل کور کے ساتھ نیا ماڈل مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ابھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اس صطلاح کو ٹھیک طرح سے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایک روز ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کی ترکیب سماعتوں سے ٹکرائی اور ارتعاش پیدا کر گئی ۔ہم جیسوں کی اڑچن یہ ہے کہ بمشکل ایک پہیلی کے پار اترجاتے ہیں تو کسی نئے چیستاں کوپراسرارانداز میں منتظر پاتے ہیں۔نئی نویلی اصطلاحات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ایک زمانے میں سوشل اِزم کا چرچا ہوا کرتا تھا ،پھر لبرل اِزم اور سیکولراِزم کا غلغلہ ہوا ،آج بھی انواع و اقسام کے کئی اِزم نئی بوتل میں پرانی شراب کی طرح بِک رہے ہیںاور کبھی کسی نے یہ جاننے کی زحمت نہیں کی کہ کس اِزم کا کیا مفہوم ہے۔وسیع تر قومی مفاد کی اصطلاح نہ جانے کس نے کب متعارف کروائی لیکن یہ قومی نوعیت کے معاملات میں ایک ایسا کمبل ہے جس میں کسی بھی فیصلے کو لپیٹا جا سکتا ہے۔اسی طرح نوے کی دہائی میں ’’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘کی ترکیب بہت مقبول ہوئی جس کا کریڈٹ جنرل (ر)اسلم بیگ مرزا لیتے ہیں۔برسہا برس صحافتی حلقے اس اصطلاح کو سہل بنانے کی کوشش کرتے رہے ،آخر کار کسی نے اس کا ترجمہ تذویراتی گہرائی کرکے ابہام اور تشکیک میں مزید اضافہ کر دیا ۔جنرل (ر)پرویز مشرف بہت بھلے آدمی تھے انہوں نے کوئی ثقیل اصطلاح لانے کے بجائے عام فہم نعرہ دیا ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ اور پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’’اگاڑی ریاست‘‘بنادیا۔جنرل (ر) پرویز مشرف کے جانے کے بعد خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا سلسلہ تھمنے کے بجائے بڑھتا چلا گیا تو کسی نے Narrativeکا مصرعہ طرح کہا اور اصحاب ذوق نے اسے بیانئے کا جامہ پہنا کر پوری غزل کہہ ڈالی ۔مشاعرے کی کیفیت برپا ہوئی تو دو غزلہ اور سہہ غزلہ کہنے والوں نے بھی خوب سمع خراشی کی اور پھر جواب آں غزل کہنے والے بھی آن دھمکے ۔دیکھتے ہی دیکھتے ’’بیانیہ بدلو ‘‘کے ردیف کی تکرار سے فضا مکدر ہو گئی۔متبادل بیانیہ پیش کرنے والوں نے رباعیوں ،مخمس اور مسدس کو اظہار کا ذریعہ بنایا ۔عوام البتہ سامعین کی طرح اونگھتے رہے اور جب کسی کی آنکھ کھلتی تو داد و ستد کے ڈونگرے برسانے کیلئے ’’واہ واہ‘‘ کہنے کے بعد ایک بار پھر سے خراٹے لینے لگتے۔
اسی اثناء میں ’’ففتھ جنریشن ‘‘ وار کی اصطلاح متعارف کروائی گئی تو سب ہڑا بڑا کر اٹھ بیٹھے ۔اب صورتحال یہ ہے کہ دوسروں پر رعب جھاڑنے کے لئے ہر کوئی یہ تو کہتا ہے کہ ہمیں ففتھ جنریشن وار کا سامنا ہے مگر اس کا مفہوم پوچھا جائے تو بیشتر لوگ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو جنگی ماہرین نے نوع انسانی کے جنگ وجدل کے زمانے کو پانچ مختلف حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔پہلی نوعیت کا زمانہ وہ تھا جب دوبدو لڑائی ہوتی تھی ،زور بازو کے اس دور میں عددی برتری ہی فوقیت کا باعث تھی جس کے پاس جتنی زیادہ افرادی قوت ہوتی ،اس کی کامیابی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے۔اس دور کی جنگوں کو فرسٹ جنریشن وار کہا گیا ہے۔سیکنڈ جنریشن وار آرٹلری کے زور پر لڑی گئی یعنی اب بہترین فوج ہی کامیابی کی ضمانت نہ رہی بلکہ اسلحہ اور ہتھیار کو مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی جس کے پاس جتنے جدید ہتھیار ہوتے ،اس کی فتح یابی کے امکانات اتنے ہی بڑھ جاتے۔دوسری جنگ عظیم کے زمانے کو تھرڈ جنریشن وار کہا گیا ہے کیونکہ اس میں جنگ کا دائرہ کار بری افواج سے بحریہ اور فضائیہ تک پھیل گیا جبکہ اسکے بعد سردجنگوں کے زمانے کو فورتھ جنریشن وار کا نام دیا گیا ہے جب کوئی ریاست دوسری ریاست کے مدمقابل نہ تھی ،اعلان جنگ نہیں ہوتا تھا ،فوجیں ایک دوسرے کیخلاف صف آراء نہیں ہوتی تھیں بلکہ جدوجہد آزادی یا بغاوت کے نام پر گوریلا جنگیں لڑی جاتی تھیںفورتھ جنریشن وار میں جن غیر ریاستی عناصر کو استعمال کیا گیا وہ پوری دنیا کیلئے خطرہ بن گئے اور اب ان غیر ریاستی عناصر نے جو جنگ مسلط کی ہے اسے ففتھ جنریشن وار کا نام دیا گیا ہے۔ففتھ جنریشن وار کا تصور تو بہت پرانا ہے اور امریکہ کے عسکری ماہرین نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہی یہ اصطلاح متعارف کروا دی تھی مگر اب اس کی گونج دوبارہ اس لئے سنائی دے رہی ہے کہ سوشل میڈیا کی صورت میں ایک دو دھاری تلوار موجود ہے جس پر ریاست کی اجارہ داری بہت محدود ہے ۔
امریکی دانشور اور مصنف نوم چومسکی نے اپنی تصنیف ’’میڈیا کنٹرول‘‘ میں اس طریقہ واردات سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے جسے آج ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کہا جا رہا ہے۔اس طریقہ واردات کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایسی اصطلاحات اور نعرے متعارف کروائے جائیں جو نہ صرف مبہم اور غیر واضح ہوں بلکہ کوئی ان سے اختلاف کرنے کی جسارت نہ کر سکے۔مثال کے طور پر امریکہ نے گیارہ ستمبر کے بعد ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی اصلاح پیش کی ۔یہ ایسی موم کی ناک ہے جسے اپنی مرضی سے کسی طرف بھی موڑا جا سکتا ہے اور دوسری طرف آپ کے بدترین دشمن بھی اس کی مخالفت نہیں کر سکتے۔اسی طرح نیشنل سکیورٹی یا قومی سلامتی جیسی بیشمار اصطلاحات ہیں جن کے نام پر سب کو ہانکا جا سکتا ہے۔یہ تو ہم نے طے کر ہی لیا ہے کہ ہمیشہ حالت ِجنگ میںرہنا ہے ،روایتی نہ سہی تو غیر روایتی جنگ۔ تو کیوں نہ ہم ایک نئی جنگ کا آغاز کریں۔سکستھ جنریشن وار ،جو غربت اور جہالت کے خاتمے کیلئے ہو تاکہ ففتھ جنریشن وار مسلط کرنے والے ہمارے نوجوانوں کو اپنا آلہ کار نہ بنا سکیں۔