• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں اسد عمر صاحب سے ایک تقریب میں سوال کیا گیا کہ آپ جہاں بھی جاتے ہیں، وہاں کرپشن کی، چوروں کی، ڈاکوئو ں کی بات کرتے ہیں۔ اس بیانیے کا ملک کے امیج پر بہت منفی اثر پڑتا ہے اور بالخصوص جب بیرون ملک یہ بات کی جاتی ہے، جیسے وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب میں انویسٹمینٹ کانفرنس سے اپنے خطاب میں یہ بات کی تو اس سے نہ صرف ملک کا امیج خراب ہوتا ہے بلکہ سرمایہ کار اور انویسٹرز پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اب خود سوچیں اگر آپ کے پاس پیسے ہوں سرمایہ کاری کرنے کے لئے اور جس ملک میں آپ سرمایہ کاری کرنا چاہ رہے ہو ں اس ملک کا وزیراعظم اور حکومتی نمائندے بار بار آپ کو یہ بتا رہے ہوں کہ یہاں تو چوروں اور ڈاکوئوں کی حکومت رہی ہے، ہمارے ادارے تباہ ہو گئے ہیں اور ہمارے لوگ بھی کرپٹ ہیں، تو کیا آپ اپنا سو روپیہ بھی اس ملک میں انویسٹ کریں گے؟

سوال کے جواب میں اسد عمر صاحب نے فرمایا کہ جب وہ پڑھے لکھے لوگوں سے ملتے ہیں بلکہ جب وہ زیادہ پڑھے لکھے لوگوں سے ملتے ہیں تو وہ ان سے کچھ ایسا ہی کہتے ہیں لیکن جب ان کی بات کسی عام شخص سے ہوتی ہے تو وہ ان سے صرف ایک ہی سوال پوچھتا ہے کہ آپ چوروں کو کب پکڑ رہے ہیں؟ آپ فلاں فلاں کو کب جیل بھیج رہے ہیں؟ اور چونکہ ان کو حکومت بنانے کا مینڈیٹ عام آدمی نے ووٹ دے کر دیا ہے، اس لئے یہ ان کے لیے ایک بڑی اور اہم ترجیح ہے اور اس پر وہ کام بھی کر رہے ہیں۔یہ بیانیہ کچھ حلقوں میں بڑا مقبول بھی ہے اور لوگ اس کو پسند بھی کرتے ہیں لیکن چند باتیں ہیں جن پر غور کرنا نہایت ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ جب بھی ہم کہتے ہیں کہ پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ کرپشن ہے، تو ہم اہلیت کے سوال کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کیا پاکستان آج جن حالات سے گزر رہا ہے وہ بدنیتی اور کرپشن کی وجہ سے ہیں؟ یہ ہماری پالیسیز اور سسٹم کی نااہلی کی وجہ سے ہیں، کیونکہ ان دونوں مسائل کا حل بڑا مختلف ہے۔ دوسرا ہم سب جانتے ہیں کہ عام آدمی کے لئے پاکستان میں زندگی بالکل آسان نہیں ہے۔ آمدنی بہت کم ہے اور مسائل بہت زیادہ۔ تعلیم کے لئے سرکاری اسکولوں کا کوئی معیار نہیں ہے اور ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنا پیٹ کاٹ کے کسی بھی طرح بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں پڑھائے۔ اسی طرح اگر خدانخواستہ کسی کے گھر کوئی بیماری آ جائے تو اس کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں دھکے کھانے سے بہتر ہے کہ پرائیویٹ اسپتال سے اچھا علاج کرایا جائے۔ مہنگائی کا اثر بھی سب سے زیادہ عام آدمی پر ہی ہوتا ہے اور ایک عام آدمی جتنی بھی کوشش کر لے، آج کے زمانے میں وہ اپنا گھر نہیں خرید سکتا۔ اگر روزگار چھن جائے تو متبادل روزگار ملنا بھی بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں کیا عام آدمی کی ترجیح چوروں کو پکڑنا ہے یا اپنے حالاتِ زندگی کو فوری طور پر بہتر کرنا؟

اگر حکومت یہ سمجھتی رہی کہ چوروں کو پکڑ کر عام آدمی خوش ہو جائے گا اور یہ سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہئے تو اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اور نہ ہی یہ بات حقیقت پر مبنی ہے۔ جو مزدور اپنے گھر کا خرچہ پورا نہیں کر سکتا کہ اس کو کئی دنوں سے مزدوری ہی نہیں مل رہی یا وہ دکاندار جس کا کاروبار تجاوزات کی زد میں آکر ختم ہو گیا ہے، اس کو صرف اپنے پیٹ اور اپنے روزگار سے غرض ہے۔اگر آپ واقعی عام آدمی کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی تعلیم کے لئے، صحت کے لئے، اس کی خوشحالی کے لئے تمام توانائی استعمال کریں۔ روزگار کے مواقع پیدا کریں اور ان کے روزگار میں اضافے کو ترجیح دیں۔ عام آدمی کے ساتھ جو چیک پوسٹوں پر سلوک ہوتا ہے ،اسے درست کر دیں۔ پینے کے پانی کے لیے عام آدمی جو مارا مارا پھرتا ہے، اس کا پانی کا مسئلہ حل کرا دیں۔ صرف عام آدمی کی زندگی کے اندر مثبت تبدیلی لاکر آپ اس کی امیدوں پر پورا اتریں گے اور آنے والے دور میں بھی اپنی حکومت اور اپنی پارٹی کے لئے جگہ بنا سکیں گے۔ آپ ان چوروں کو ضرور پکڑیں جنہوں نے اس ملک کا ایک روپیہ بھی چرایا ہے، ان کو بدترین سزا دیں لیکن اسے عام آدمی کی سب سے بڑی خواہش بنا کر خدارا اس کے ساتھ زیادتی نہ کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین