• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت اور اپوزیشن احتساب آرڈیننس میں کالے قوانین ختم کرنے کے قریب

اسلام آباد (طارق بٹ) حکومت اور اپوزیشن جماعتیں نیب کے تحت گرفتار ملزمان کو سہولتیں بہم پہنچانے کی غرض سے متعلقہ قوانین میں ترامیم کے لئے مذاکرات میں مصروف ہیں جو ان کی رائے میں کالے قوانین ہیں اور انہیں ختم ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے بھی ان قوانین میں دو ترامیم تجویز کی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان چوتھا اجلاس آج بدھ کو ہوگا۔ جس میں قومی احتساب آرڈیننس 1999ء میں مجوزہ ترامیم زیرغور آئیں گی۔ یہ بات رابطہ کرنے پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماء اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بتائی۔ رواں سال نومبر کے وسط میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کے تحریر کردہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں دو اہم تبدیلیاں تجویز کی گئیں۔ آئینی و قانونی ماہر وسیم سجاد کے مطابق حکومت اور پارلیمنٹ کے پاس مذکورہ مجوزہ تبدیلیوں کو سنجیدہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایک مجوزہ ترمیم کا تعلق نیب کی زیرحراست ملزمان کو ضمانت دینے سے متعلق ہے۔ دُوسری کا تعلق احتساب عدالت میں ریفرنس کا فیصلہ کرنے کے حوالے سے غیرضروری ٹائم فریم سے متعلق ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ جو آئندہ ماہ چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھالیں گے۔ انہوں نے اپنے ایک فیصلے میں لکھا تھا کہ تبدیل شدہ حالات میں پارلیمنٹ اگر چاہے تو قومی احتساب آرڈیننس میں مناسب تبدیلی کرسکتی ہے تا کہ متعلقہ احتساب عدالت میں ملزمان ضمانت کے لئے درخواست داخل کر سکیں۔ اگر ہائی کورٹ درخواست ضمانت ردّ کرتی ہے تو ملزم کو سپریم کورٹ سے رجوع کا حق ہونا چاہئے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ قومی احتساب آرڈیننس میں دفعہ۔ 9(بی) متعارف کرانے کی پشت پر نیت جس کے تحت ضمانت دینے کے حوالے سے اعلیٰ عدالتوں کا اختیار ختم ہو جاتا ہے، وہ پہلے ہی ہائی کورٹ سے ضمانت کا دروازہ کھلنے سے غیرمؤثر ہو جاتا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے احتساب عدالت میں ریفرنس کے فیصلے کیلئے غیرضروری ٹائم فریم پر نظرثانی کا بھی مشورہ دیا ہے۔

تازہ ترین