• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیلڈ مارشل ایوب خان کو چکوال کے نواحی قصبہ خان پور کی شکار گاہ بڑی پسند تھی ۔آنجناب دوران اقتدار دلجبہ کی خوبصورت پہاڑیوں میں کوئی چودہ مرتبہ شکار کے لئے تشریف لائے۔چکوال اس وقت ضلع جہلم کی پسماندہ سی تحصیل تھی۔جونہی صدر صاحب کے شکار کا بگل بجتا،ڈپٹی کمشنر جہلم نوابزادہ یعقوب خان ہوتی محکمہ مال چکوال کو انتظامات کا حکم صادر کرتے اور چکوال کے پٹواری اور تحصیلدار اس مملکت خداداد کی اعلیٰ ترین روایات کے عین مطابق اپنے سرکاری فرائض چھوڑ کر وی وی آئی پی شکار اور کھانے کے انتظاما ت میں (ذاتی خرچے پر) جُت جاتے کیونکہ ماضی ہو یا حال یہی وطن عزیز کے آئین اور قانون کا اصل چہرہ بھی ہے اور سرکاری ملازمین کی نوکریوں کی ضمانت بھی ۔کئی دن تک انتظامات کا سلسلہ جاری رہتا،کراچی کے فائیو اسٹار ہوٹل سے کھانے کا انتظام کیا جاتا اور دیگر دور دراز کے شہروں سے وی آئی پی فرنیچر ،کراکری اور قالین وغیرہ کرائے پر حاصل کئے جاتے۔صدر ایوب خان اپنے رفقاء کے لشکر کے جلو میں صبح سویرے پہنچ جاتے ،ڈوہمن ریسٹ ہاؤس میں ناشتہ کرتے،دن بھر شکار سے لطف اندوز ہوتے،کھانا تناول کرتے اور واپس چلے جاتے ۔یہ 1963ء کی بات ہے ہمارے والد گرامی چوہدری شاہ نواز خان اس وقت موضع خان پور میں پٹواری تعینات تھے۔
ہمارے دیگر حکمرانوں کی طرح ایوب خان کو بھی ملک سے کرپشن کے خاتمے کا شوق چرایا ۔اس مقصد کے لئے ان کی قائم کردہ انسپکشن ٹیم کی بڑی کُوک تھی ۔یہ ٹیم اعلیٰ فوجی و سول افسران اور آڈیٹر جنرل پر مشتمل تھی چند غیر ملکی صحافی بھی ان کے ساتھ ہوتے تھے ۔اس ادارے نے قائم ہوتے ہی اپنی تیز دھار درانتی سیدھی کرپشن کی جڑوں میں رکھ دی اور ملک سے بدعنوانی اور رشو ت کو بالکل اسی طرح ختم کر دیا جیسے ہماری ہر حکومت ان خرافات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔ یہ لوگ سرکاری دفتروں میں گھس جاتے اور اپنی چھڑیاں میزوں پر مار مار کر افسروں اور اہلکاروں سے سخت باز پرس کرتے اور ان کو بے عزت کرتے ۔اس انسپکشن ٹیم نے ملک کے طول و عرض میں کھلی کچہریاں منعقد کیں، موقع پر لوگوں کی شکایات سنیں اور بدعنوانیوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کے علاوہ سرکاری ملازمین کو برموقع ذلیل بھی کیا۔کرنا خدا کا کیا ہوا کہ اسی صدارتی شکار گاہ موضع خان پور میں اس ”کرپشن دشمن“ ٹیم نے کھلی کچہری کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔مقامی انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔حسب ِ روایت پٹواریوں نے مروجہ طریقہ (از گرہ خود) سے ٹیم کے کھانے پینے وغیرہ کا بندوبست کیا۔ کھلی کچہری نے جلسہٴ عام کی شکل اختیار کر لی ۔پولیس،محکمہ مال اور دیگر سرکاری اداروں کے خلاف لوگوں نے شکایات کیں۔ بریگیڈیئر مظفر صاحب نے سرکاری افسران و اہلکاروں کے خوب لتّے لئیے اور برملا اعلان کیا کہ ہم سب کو سیدھا کر دیں گے۔ یہ کچہری بخیر و عافیت (علاقہ کو کرپشن سے پاک کرکے) اختتام پذیر ہو جاتی ،اگر آخر میں غلام رسول نامی شخص اپنی شکایت نہ کرتا ۔اس نے مطالبہ کیا کہ گاؤں کے قبرستان کی جگہ اب ناکافی ہو چکی ہے لہٰذا گاؤں میں ہندوؤ ں کی جو متروکہ پراپرٹی موجود ہے اس کو قبرستان کے لئے وقف کیا جائے۔اس نے مزید کہا کہ مذکورہ پراپرٹی کے بارے میں پٹواری حلقہ صحیح نہیں بتائے گا، سو اس کو ذرا رگڑا دے کر پوچھیں۔ والد صاحب تب نوجوان عمر اور جذباتی طبیعت تھے،وہ خود ہی کھڑے ہوگئے اور اپنا تعارف کرایا کہ میں شاہ نواز خان حلقہ پٹواری خانپور ہوں۔بریگیڈیئر موصوف نے پٹواریوں کی شان میں چند قصیدے پڑھے،انہیں چور اور رشوت خور قرار دیااور حکم دیاکہ غلام رسول کی بات کا جواب دو ۔والد بزرگوار نے پہلے تو عرض کی کہ یہ زمین صوبائی حکومت کے فلاں حکم کے تحت ،فلاں مہاجر کو الاٹ ہو چکی ہے ۔پھر ٹیم سے استفسار کیا کہ اب مجھے بتایا جائے کہ مجھے رگڑا کیوں دیاجائے گا؟ اب بریگیڈیئر مظفر اور پٹواری سرکل کے درمیان تلخ کلامی شروع ہو گئی ۔ بریگیڈیئر صاحب نے حکم دیا ”بیٹھ جاؤ“ پٹواری صاحب نے کہا ”نہیں بیٹھتا “ بریگیڈیئر صاحب نے پوچھا ”کیا کر و گے؟“ انہوں نے جواب دیا ”شکایت کروں گا…آپ بدعنوانی کے خلاف میری ایک شکایت نوٹ کریں “ بریگیڈیئر مظفر نے پوچھا کہ تم نے کس کے خلاف شکایت کرنی ہے؟ پٹواری سرکل نے کہا ”صدر ایوب خان کے خلاف“ محفل میں سناٹا چھا گیا۔ بریگیڈیئر نے کہا ”کیاصدر کرپٹ ہیں؟“ ہمارے ابا جی نے کہا ”جی ہاں! وہ بدعنوان ہیں …وہ بل نہیں دیتے ۔وہ اب تک بارہ مرتبہ اس علاقہ میں شکار کے لئے آچکے ہیں۔ ایک دفعہ ان کو کھانا سردار خضر حیات خان نے دیااور بقول ان کے (اس زمانے میں ) آٹھ ہزار روپے (صرف کھانے کا) خرچ آیا ۔مجھے بتایا جائے کہ باقی گیارہ دفعہ آٹھ ،آٹھ ہزار روپے کہاں سے آئے؟ کیا صدر ایوب ساتھ لائے تھے یا کسی سرکاری ادارے نے دیئے تھے؟ اگر آپ کو نہیں معلوم تو میں بتاتا ہوں کہ کھانے کے یہ پیسے اور دیگر اخراجات ان بدعنوان پٹواریوں نے برداشت کئے تھے“ جناب شاہ نواز خان نے مزید کہا کہ آپ کب سے رشوت ،رشوت کی رٹ لگا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔صاف بات یہ ہے کہ پٹواری چھوٹے چور ہیں اور آپ بڑے چور ہیں۔ ہمیں یہ اخراجات کرنے کا حکم اوپرسے آتا ہے۔ انہوں نے کہا ”سو سنار کی ،ایک لوہار کی “ کے مصداق پٹواری تھوڑی تھوڑی رشوت اکٹھی کرتے ہیں اور صدر ایک ہی جست میں آ کر ساری چٹ کر جاتا ہے ، نیز میں سرکاری ملازم ہوں کوئی رئیس زادہ نہیں کہ یہ رقم گھر سے لایا کروں۔ لوگ جو پہلے ہی حکومت کے خلاف بھرے بیٹھے تھے ،انہیں اس بات سے حوصلہ ہوا اور انہوں نے حکومت کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ ایس پی جہلم نے اپنی فورس کے ہمراہ آگے بڑھ کر والد صاحب کو قابو کر لیا مگر بریگیڈیئر صاحب نے حکم دیا کہ اس کو اسٹیج پر آنے دیا جائے۔ اسٹیج پر انہوں نے پٹواری سے کہا کہ یا تو تم پاگل ہو یا تمہارے گھر دانے زیادہ ہیں۔ابا جی نے جواب دیا کہ دونوں باتیں غلط ہیں نہ میں پاگل ہوں اور نہ ہی امیر آدمی ہوں ۔آپ کب سے کرپشن پر لعنتیں بھیج رہے ہیں اسی بارے میں ایک سچ بات تھی جو میں نے بھی کہہ دی ۔بریگیڈیئر صاحب نے پوچھا کہ تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہوٹل اور دیگر اشیاء کے بلز میرے نام پر ہیں جو میں کسی بھی فورم پر پیش کرنے کو تیار ہوں ۔اس دوران غیر ملکی جو ”پریذیڈنٹ اور کرپٹ “ جیسے الفاظ بار بار سن کر کافی کچھ سمجھ چکے تھے، پوچھتے رہے کہ یہ کیا کہتا ہے ؟ ان کو اراکین ٹیم اور انتظامیہ ٹالتے رہے تاہم ایک بوڑھے انگریز نے اٹھ کر والد صاحب کا کندھا تھپتھپایا اور اپنی ڈائری پر ایک لمبا نوٹ لکھا۔ المختصر ! کھلی کچہری ہذا نہایت بدمزگی کے عالم میں اختتام پذیر ہوئی اور انسپکشن ٹیم بغیر کچھ کھائے پیئے اٹھ کر چلی گئی کیونکہ وہ بدعنوانی کا قلع قمع کرنے آئے تھے ،آئینہ دیکھنے نہیں۔
اسی شام والد بزرگوار کو ریسٹ ہاؤس میں افسروں نے طلب کیا۔ اسسٹنٹ کمشنر چکوال کیپٹن سعید نے انہیں کہا کہ اگرچہ میرے اختیارات تھوڑے ہیں لیکن تم نے کام ایسا کیا ہے کہ مجھ سے جتنا ہو سکا تمہارا دفاع کروں گا۔ ڈپٹی کمشنر نوابزادہ یعقوب خان نے ابا جی کو الگ کمرے میں بلایا، اپنا پرس نکال کر میز پر رکھ دیا اور کہا کہ اگر میرے کسی دورے پر تم نے کچھ خرچ کیا ہو تو اس میں سے لے لو۔ (جاری ہے)
تازہ ترین