• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طبی تاریخ میں پہلی مرتبہ زندہ انسان کے سر کی پیوندکاری کا تجربہ درمیان میں ہی رہ گیا۔ سر عطیہ کرنے کے لئے تیار روسی شخص نے بیوی اور بیٹے کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر تجربے کےلئے سردینے سے انکار کردیا۔

معذورویلیری کی ایک سال قبل ماسکو میں شادی ہوئی اور جوڑا اس وقت امریکا میں مقیم ہے،ان کے ہاں چھ ہفتے قبل بیٹے کی پیدائش ہوئی جو صحت مند ہے۔

چند سال قبل اٹلی کے نیورو سرجن سرجیو کینا ویرو دنیا بھر میں شہ سرخیوں میں نظر آئے جب انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ بہت جلد ایک زندہ انسانی سر دوسرے جسم پرلگانے کا تجربہ کرنے والے ہیں۔

گزشتہ برس انہوں نے انسانی سرکی پیوندکاری کا کامیاب تجربہ کرنے کا اعلان کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربہ فی الحال دو مردہ افراد کے سروں پر کیا گیا۔ ان کا مزیدکہنا ہے کہ اگلے مرحلے میں اسے ایک زندہ شخص پر آزمایا جائے گااور اس کے لئے سر کا عطیہ دینے کےلئے 33سالہ روسی نژاد ویلیری سپرنڈونوف تیار تھے، جو ریڑھ کی ہڈی سے وابستہ اعصاب کی ایک بیماری ویرڈنگ ہوفمن کا شکار ہیں۔ یہ بیماری لاعلاج ہے۔

ویلیری ایک کمپیوٹر ماہر ہیں جن پر اطالوی سرجن نے اس تجربے کےلئے دوسال کام کیا، تاہم اب اس کے انکار کے بعد ایک چینی رضاکار پر کام کیا جارہا ہے۔ویلیری نے پیوندکاری منصوبے پر شک وشبہات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ کچھ غلط ہونے جارہا ہے کیونکہ طبی دنیا اس پر اپنے خدشات کا اظہار کرچکی ہے کہ فی الحال سائنسی لحاظ سے ایسا ناممکن ہے۔

ویلیری اس وقت امریکا کی فلوریڈا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ان کی اہلیہ 30سالہ اناستا شیابھی کمپیوٹر کی ماہر ہیں اور وہ کیمیکل میں ماسٹرز ہیں۔انہوں نے ویلیری سے محبت کے اظہار کااعلان سوشل میڈیا پرکیا اور ایک سال قبل ماسکو میں انہوں نے شادی کی۔ 

ویلیری کا کہنا تھا کہ تجربے میں انتہائی خطرات تھے،وہ اپنی زندگی کو داؤ پر نہیں لگاسکتے تھے کیونکہ اس میں بچنے کے بہت ہی کم مواقع تھے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال مردہ انسانی سروں کے تجربات میں کچھ مشکلات اور ناکامیاں سامنے آئیں جنہیں منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

ٹورن ایڈوانسڈ نیورو موڈیولیشن گروپ کے سربراہ اطالوی نیورو سرجن سیرجیو کاناویرو کی جانب سے پہلی مرتبہ انسانی سر کی پیوندکاری کا منصوبہ 2013ءمیں پیش کیا گیا تھا۔ 2015میں انہوں نے اس حوالے سے امریکا میں پریس کانفرنس کی ۔سرجیونے اس منصوبے کا نام” سرکے انضمام کا منصوبہ“ رکھا جبکہ اس کا کوڈ ”ہیون“ تھا۔

انہوں نے سرجری کے متعلق بتایا کہ اس کی کامیابی اس پرمنحصر ہے کہ ایک نینو بلیڈ کی مدد سے ریڑھ کی ہڈی سے جڑے اعصاب کو کاٹا جائے اور پولیتھیلین گلیکول اور الیکٹریکل کرنٹ کے ذریعے انہیں دوبارہ اعصابی دھاگوں سے جوڑا جائے تاہم انسانی سر کی پیوندکاری کو مشکل ترین آپریشن قرار دیا گیا۔

کئی ماہرین نے کہا کہ سر کی پیوند کاری سے قبل ریڑھ کی ہڈی سے جڑے اعصاب کے حوالے سے مزید تحقیق انتہائی ضروری ہے کیونکہ متعدد اعصابی ڈوریوں کو دوبارہ جوڑنا ایک انتہائی مشکل اور پیچیدہ عمل ہے، خصوصاً ویگس اعصاب کو، جو نظام انہضام اور دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرتے ہیں۔

گزشتہ برس ایک چوہے کے سر کے اوپر دوسرا سر لگانے کا کامیاب تجربہ بھی کیا گیا تھا۔چین کی ہربن یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڑیاو پنگ رین نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ وہ گزشتہ برس جنوری میں ایک بندر کا سر دوسرے بندر کے سر پر لگا چکے ہیں۔

تازہ ترین