• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوازشریف کیخلاف دونوں ریفرنسز پر فیصلے محفوظ

احتساب عدالت نے مسلم لیگ ن کے بانی  اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف دونوں ریفرنسز پر مزید مہلت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فیصلے محفوظ کر لیے ہیں۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت کی جس میں فریقین کی جانب سے ریفرنسز کے قانونی نکات پر دلائل دیئے گئے۔

سابق وزیراعظم کے خلاف فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز پر فریقین وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلے محفوظ کیے گئے ، جبکہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے کیس میں ایک ہفتے کی مزید مہلت کی درخواست کی گئی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریمارکس دیئے کہ بیان ریکارڈر کرنے کے بعد ملزم نے مزید وقت مانگا، جبکہ مزید وقت مانگنے کی درخواست پر نیب کا موقف تھا کہ مزید مہلت فیصلے میں تاخیر کا باعث بن سکتی ہے۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں نئی دستاویزات پیش کرتے ہوئے نیب ریفرنسز کے قانونی نکات پر حتمی دلائل مکمل کیے جس کے بعد پراسیکیوٹر نیب کے دلائل جاری ہیں۔

خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے حسن نواز کی کمپنیوں سے متعلق نئی دستاویزات عدالت میں پیش کیں جو لینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ سے تصدیق شدہ ہیں۔

خواجہ حارث نے دلائل کے دوران کہا کہ یہ کہتے ہیں جے آئی ٹی رپورٹ تفتیشی رپورٹ نہیں اور اس پر تو لکھا ہے یہ تفتیشی رپورٹ ہے جب کہ اس رپورٹ کا نام ہی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تفتیشی رپورٹ ہے۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ ملازمت اور تنخواہ سے متعلق عدالتی سوالات کے جواب بھی دیے اور کہا کہ نواز شریف کی یہ ملازمت صرف ویزا حاصل کرنے کے لیے تھی، وہ وہاں سے تنخواہ لے سکتے تھے مگر تنخواہ وصول نہیں کی۔

خواجہ حارث نے اپنے موقف پر دلیل دی کہ سپریم کورٹ نے کہا اگر وہ تنخواہ آپ نے نہیں بھی نکلوائی پھر بھی اثاثہ ہے جس پر میرا مؤقف ہے کہ تنخواہ کا تعین صرف ملازمت کے کنٹریکٹ کی حد تک تھا اور وہ صرف کنٹریکٹ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے تھا، مقصد تنخواہ لینا نہیں تھا۔

انہوں نے کہا نواز شریف کا اس کمپنی میں عہدہ صرف رسمی تھا،کمپنیاں چلانے سے اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا، جج ارشد ملک نے استفسار کیا تنخواہ سے متعلق آپ کا مؤقف درست مان لیں تو اس کا کیس سے کیا تعلق بنتا ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا تعلق یہ بنتا ہے کہ نواز شریف کی صرف ملازمت ثابت ہو رہی ہے ملکیت نہیں۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا جسٹس آصف سعید کھوسہ کے 20 اپریل والے فیصلے پر نظرثانی نہ کرنے کا بھی جواب دیتا ہوں، اکثریتی فیصلہ ہی ہمیشہ اصل فیصلہ مانا جاتا ہے، 3 ججز نے جے آئی ٹی بنوائی تھی اور انہوں نے اپنا فیصلہ جے آئی ٹی رپورٹ دیکھ کر ہی دیا اور 28 جولائی کو ان 3 ججز کے فیصلے پر پانچوں ججوں نے دستخط کیے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں احتساب عدالت کو فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ 24 دسمبر تک سنانا ہے۔

تازہ ترین