برٹش ایئر ویز کی طرف سے دس سال قبل پاکستان کے لئے بند کی جانے والی سروس بحال کرنے کا اعلان، افغانستان میں امن کے لئے ابوظہبی میں جاری واشنگٹن طالبان مذاکرات میں پیش رفت کے آثار، آئندہ الیکشن کے حوالے سے سیاسی رابطوں کے اشارے کنائے، احتساب آرڈی ننس 1999ء میں اصلاحاتی ترامیم کے لئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بدھ کو منعقدہ چوتھا رابطہ، 54ممالک کے لوگوں کو ’’آن ارایول‘‘ ویزا سہولتیں دینے کے لئے اسلام آباد کی کاوشیں یقیناً ایسے امور ہیں جنہیں کسی تامل کے بغیر ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈالنے کے عمل کا حصہ کہا جا سکتا ہے۔ ایک ہی دن میں آنے والی اتنی اطلاعات مظہر ہیں اس امر کی کہ ملک اس وقت جن سنگین چیلنجوں سے دوچار ہے، ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے مختلف جہتوں میں کام نہ صرف سرگرمی سے جاری ہے بلکہ اپوزیشن سمیت بیشتر حلقے اس باب میں اپنا اپنا کردار حتی الامکان ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت مہنگائی، بے روزگاری، افراط زر، معاشی ابتری اور سیاسی مسائل کی جو گمبھیر صورت حال نظر آ رہی ہے اس میں بلاشبہ ہر شعبہ ہی اصلاح طلب ہے مگر امید افزا بات یہ ہے کہ ہر میدان میں درستی کی تدابیر بھی جاری ہیں۔ یہ کام عوامی فلاح کے جن دعوئوں کے ساتھ جاری ہیں، ان میں اخلاص کا پہلو حاوی رہا تو نتائج سامنے آنے پر یہ کہنا آسان ہو گا کہ ہم ایسے نئے پاکستان کی منزل کی سمت بڑھ رہے ہیں جس میں باہمی اندرونی تحفظات خوش اسلوبی سے طے کرنے، ہمسایہ ملکوں، بڑی طاقتوں اور عالمی برادری سے امن و تفہیم کی بہتر فضا میں موثر ربط و ترقی کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔ 15؍جون 2019ء سے برٹش ائیر ویز کی پروازیں بحال ہو رہی ہیں۔ جرمنی سمیت کئی دیگر ملکوں کی ائیر لائنز کے ساتھ بھی ایسے ہی انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ وہ لمحات یقیناً پرمسرت ہوں گے جب 54ممالک کے لوگ ’’آن ارایول‘‘ ویزا کی سہولت حاصل کرکے سیر و سیاحت، تجارتی رابطوں، تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں اور مختلف نوع کے سیمینارز میں حصہ لیں گے۔ معیشت کے میدان میں دوست ملکوں سے بیل آئوٹ پیکیجیز کا حصول ایک لحاظ سے بقا و استحکام کی پہلی ترجیح تھی جس کے بعد آئی ایم ایف سے باعزت شرائط پر معاملات طے کرنے سمیت بہت کچھ ہو رہا ہے۔ معروف امریکی تاریخ دان ویسٹر ٹارپلی کے اپریل 2013ء میں کئے گئے دعوے کے مطابق جس پاکستان کو توڑنے کا حقیقی مقصد سامنے رکھ کر افغانستان کے اندر اور اس کے راستے پاکستان میں بہت کچھ کیا گیا، اس کے جلی و خفی آسیبوں کو شکست دے کر اسلام آباد نہ صرف اپنے حالات درست کرنے میں مصروف ہے بلکہ افغانستان میں قیام امن کی ہر کاوش میں پورے اخلاص کے ساتھ معاونت اور سہولت کاری کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس وقت ابوظہبی میں جاری امریکہ طالبان مذاکرات کے منظرنامے میں بھی وزیراعظم عمران خاں کا کہنا ہے کہ امن عمل آگے بڑھانے کے لئے پاکستان سے جو بھی بن پڑا، وہ کرے گا۔ جہاں تک پاک بھارت کشیدگی دور کرنے کے مشکل ٹاسک میں پیش رفت کا تعلق ہے، نئی دہلی کی طرف سے پاکستان کی امن بات چیت کی تجویز کا لفظوں کی صورت میں نہ صرف منفی جواب ملا بلکہ سارک کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کر دیا گیا۔ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ کرتارپور راہداری کھولے جانے کی صورت میں پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے مستقبل کی روشنی واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ جب ہمارے اندرونی معاملات آئین، قانون اور باہمی احترام پر مبنی جمہوری روایات کے سانچے میں ڈھلیں گے تو بیرونی صورت حال میں بھی بہتری آئے گی۔ ملکی حالات درست کرنے، ہمسایہ اور دوست ملکوں سے تعاون بڑھانے، گرتی ہوئی معیشت کو مستحکم بنانے کے کام بلاشبہ محنت طلب ہیں مگر جب پوری قوم کمر باندھ لے تو ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں میں ہمارا کردار بڑھے گا۔ اندرون ملک بسنت اور میلوں کے رنگ اور خوشبوئیں پھیلیں گی اور لوگ موسم گل کی رعنائیاں دیکھنے کے قابل ہو سکیں گے۔