• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

صوبہ جنوبی پنجاب خواب سے حقیقت کب بنے گا ؟

جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف نیچے گر رہا ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہیں، تاہم سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جو وعدے کئے گئے تھے، ان پر عملدرآمد کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی، مخدوم جاوید ہاشمی جو ہمیشہ سے تحریک انصاف کی حکومت کے ناقد رہے ہیں، گزشتہ ہفتہ کھل کر بولے اور انہوں نے سخت الفاظ میں حکومت پر تنقید کے نشتر برسائے، خاص طور پر انہوں نے علیحدہ صوبہ بنانے کے حوالے سے تحریک ا نصاف کے ’’یوٹرن‘‘ کو نشانہ بنایا اور کہا کہ حکومت حیلے بہانوں سے کام لے رہی ہے، کیونکہ وہ علیحدہ صوبہ بنانا ہی نہیں چاہئیں اور صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے الیکشن مہم میں علیحدہ صوبہ کے قیام کا شوشہ چھوڑا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پیشکش کرتا ہوں کہ تحریک انصاف صوبہ جنوبی پنجاب کے لئے قرارداد لائے اور آئینی ترمیم کا راستہ اختیار کرے، تو مسلم لیگ (ن) اس کی مکمل حمایت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ لیکن یہ پیشکش تحریک انصاف اس لئے قبول نہیں کرے گی کہ وہ علیحدہ صوبہ بنانا ہی نہیں چاہتی، تحریک انصاف کے اس صوبہ بنانے کے وعدے نے صحیح معنوں میں اسے مشکل میں ڈال رہا ہے، مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنی اس پریس کانفرنس میں اور بھی بہت سخت باتیں کیں اور دل کھول کر اپنا ابال نکالا۔ انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ دھمکیاں مل رہی ہیں کہ ان کے بچوں کو بھی اغوا کیا جا سکتا ہے، اس لئے وہ اپنی زبان بند رکھیں، بعض حلقوں کے مطابق مخدوم جاوید ہاشمی کی یہ باتیں ان کی سیاسی تنہائی کو ظاہر کرتی ہیں کیونکہ وہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی بھی بڑی قیادت میں شامل نہیں ہیں اور ملتان میں بھی ان کے سیاسی حالات کچھ زیادہ سازگار نہیں ہیں، تاہم ان کی اس بات نے مخدوم شاہ محمود قریشی پر سیاسی دبائو بڑھا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے علیحدہ صوبہ کی حمایت کا یقین دلاتے ہیں، یاد رہے کہ شاہ محمود قریشی کچھ عرصہ پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ علیحدہ صوبہ کے لئے شہباز شریف اور بلاول بھٹو سے رابطہ کرلیا جائے، لیکن انہوں نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں کی، اب مخدوم جاوید ہاشمی نے صوبہ کی حمایت کا اعلان کرکے جو گیند تحریک انصاف کی کورٹ میں پھینکی ہے، اس کی وجہ سے اب یہ معاملہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) کی طرف سے صوبہ بنانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، رکاوٹ ہے، تو خود تحریک انصاف کے اندر ہے، بعض ذرائع نے یہ انکشاف کیا ہے کہ تحریک انصاف نے علیحدہ صوبہ کے قیام سے ہاتھ کھینچ لیا ہے، لیکن اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا جا رہا ہے، جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی رائے پارٹی کے اندر ان رہنمائوں نے دی ہے جو کہتے ہیں کہ اگر پنجاب کو تقسیم کیا گیا تو اپر پنجاب مستقل طور پر مسلم لیگ (ن) کے پاس چلا جائے گا اور اس طرح سندھ اور اپر پنجاب میں تحریک انصاف کے لئے مخالف حکومتوں کا سامنا ہمیشہ دردسر بنا رہے گا، پارٹی کے ان رہنمائوں نے اعداد وشمار سے چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان کو یہ باور کر رہا ہے کہ اس بار پنجاب میں اگر تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی ہے تو اس کی وجہ جنوبی پنجاب سے بڑی کامیابی کا ملنا ہے، اگر صوبہ بنا تو بے شک جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بن جائے گی، مگر اپر پنجاب اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا، فی الوقت تو یہ ایک مفروضہ ہی لگتا ہے، مگر تحریک انصاف کی علیحدہ صوبہ کے قیام سے بڑھتی ہوئی عدم دلچسپی اس امر کو ظاہر کرتی ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے اور حکومت اب مختلف حیلے بہانوں سے اس مطالبے کو پس پشت ڈالنا چاہتا ہے، مخدوم جاوید ہاشمی پریس کانفرنس اصل میں اس ران کو آشکار کرنے کے لئے کی گئی کوشش نظر آتی ہے، یاد رہے کہ کچھ ہفتہ پہلے سید یوسف رضا گیلانی نے بھی کھل کر یہ پیشکش کی تھی کہ تحریک انصاف علیحدہ صوبہ کے قیام کی طرف سفر شروع کرے، پیپلز پارٹی اس کا بھرپور ساتھ دے گی، اب منظرنامہ کچھ ایسا بن چکا ہے کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جنوبی پنجاب کی قوم پرست سرائیکی تنظیمیں تو کھل کر علیحدہ صوبہ کے لئے آواز اٹھا رہی ہیں، مگر تحریک انصاف جان چھڑاتی نظر آتی ہے، دوسری طرف یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ پنجاب حکومت جنوبی پنجاب کو نظرانداز کر رہا ہے اگرچہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے صرف ایک بار ڈیرہ غازیخان کا دورہ کیا اور ملتان تو وہ صرف چند گھنٹوں کے لئے آئے تھے، یاد رہے کہ جب وہ اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے اعلان کیا تھا کہ مہینہ میں کم از کم ایک بار وہ جنوبی پنجاب میں اپنا تین روزہ قیام یقین بنائیں گے اور پوری پنجاب حکومت ملتان میں موجود ہوگی، مگر یہ وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا اور یوں لگتا ہے کہ ڈیرہ غازیخان کے لئے انہوں نے جس پیکیج کا اعلان کیا، وہ بھی کاغذوں اور وعدوں کی حد تک رہے گا اور اس پر عملدرآمد کی نوبت کم ہی آئے گی، کیونکہ بجٹ میں ان منصوبوں کے لئے کوئی رقم نہیں رکھی گئی، گویا یہ اگلے بجٹ کے منصوبے ہیں اور اس پر کہا جا سکتا ہے ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘۔ شہباز شریف بھی ایسے بڑے بڑے منصوبے اعلانات کی حد تک جنوبی پنجاب کی عوام کو دے جاتے تھے، لیکن ان کا دس سالہ دور گزر گیا مگر جنوبی پنجاب کو کوئی بڑا منصوبہ نہ ملا۔ حکومت پر صرف ایک دبائو ہے کہ وہ علیحدہ صوبہ بنائے، اس دبائو کو ختم کرنے کے لئے یہ جنوبی پنجاب کو کچھ منصوبے اور فنڈز مل جائیں، وگرنہ اب تک کی صورتحال کو یہ بتاتی ہے کہ موجودہ حکومت کی بھی ترجیحات میں جنوبی پنجاب شامل نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہاں کے لوگوں نے علیحدہ صوبہ کے نعرے پر تحریک انصاف کو ووٹ دیئے اور یہ امید باندھی اور یہ امید باندھ لی تو حکومت بنتے ہی تحریک انصاف جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے وعدے کو پورا کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے گی۔ ادھر تحریک انصاف میں مخدوم شاہ محمود قریشی کے خلاف آوایں اٹھنے لگی ہیں، ان کو صوبائی نشست پر شکست دینے والے نوجوان سلمان نعیم نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کی اور کھل کر یہ الزام لگایا کہ مخدوم شاہ قریشی شدید اقربا پروری کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو بری طرح نظرانداز کیا جا رہا ہے جو شخص شاہ محمود قریشی کی گڈ بکس میں ہو، وہی عہدہ پاک ہے اور باقیوں کی قربانیوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، انہوں نے لاء افسروں کی تقرری میں مخدوم شاہ محمود قریشی بھی اقربا پروری کا الزام لگایا اور کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو اس کا نوٹس لینا چاہئے، کیونکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور ان کا مقصد صرف ملتان میں اپنی لابی کو سپورٹ کرتا ہے، چاہے پارٹی کو اس کی وجہ سے نقصان ہو، کیوں نہ ہوتا ہو، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سلمان نعیم نے گزشتہ دنوں 60 اجتماعی شادیوں کی تقریب منعقد کی اور اس میں جہانگیر ترین کو مہمان خصوصی بنایا، یہ تقریب اس حوالے سے اہمیت اختیار کر گئی کہ اس میں جہانگیر ترین نے اپنے پورے گروپ کے ساتھ بھرپور شرکت کی اور یہ بات واضح کر دی کہ ملتان کا میدان شاہ محمود قریشی کے لئے کھلا نہیں چھوڑا گیا، بلکہ انہیں شکست دینے والا ممبر صوبائی اسمبلی سلمان نعیم ان کے مقابلے میں اب ایک بڑے حریف کے طور پر موجود ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین