• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بے گھر لاہوریے شدت سے ہاؤسنگ اسکیم شروع ہونے کے منتظر!

کرکٹ کا میدان ہو یا سیاست کا عمران خان پوری زندگی فرنٹ فٹ پر کھیلے اور خود دبائو کا شکار ہونے کے بجائے حریفوں کے خلاف جارحانہ انداز اختیار کرنے کو ترجیح دی،اسی فائٹنگ سپرٹ نے 22 سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد میں انہیں وزیراعظم کے منصب تک پہنچایا، کپتان نے پنجاب جیسے حساس صوبے کی کمان کم گو اور شرمیلے عثمان بزدار کو سپردکی تو سیاسی اور سماجی حلقوں میں اس فیصلے پر بڑی حیرت کا اظہار کیا گیا، وزیراعلی بننے کے بعد بھی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار بڑی دھیمی چال چلتے نظر آئے، اس دوران یہ چہ مگویاں بھی ہونے لگیں کہ کہ شاید پنجاب کے معاملات سنبھالنا ان کے بس کی بات نہیں اور جلد ہی کپتان کسی اور کو مسند پر بٹھانے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، دوسری جانب وزیراعظم نے اہم رول کیلئے منتخب اپنے کھلاڑی کا اعتماد بڑھانے اور حوصلہ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، 100روزہ پلان کے حوالے سے غیر معمولی سرگرمیاں بھی مناسب انداز میں میڈیا کے سامنے پیش نہیں کی جاسکیں، اس صورتحال میں بعض سیاسی پنڈت یہ تبصرے بھی کرنے لگے تھے کہ عثمان بزدار مزید پس منظر میں جاتے جائیں گے اور فیصلے کرنے والے ان کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کا کام کرتے رہیں گے، دسمبر کا دوسرا ہفتہ ختم ہونے سے قبل وزیراعلی پنجاب کی باڈی لینگویج ہی مختلف نظر آئی، انہوں نے گزشتہ تین ماہ میں پس پردہ رہ کر جو کام کئے تھے ان کی ایک جھلک بھی دکھائی، میڈیا کے چھبتے سوالوں کا مسکراہٹ اور ذہانت کے ساتھ جواب بھی دیا اور اپنے آئندہ لائحہ عمل کی تفصیلات بھی بتا دیں۔ کپتان کے اس کھلاڑی کا بدلہ ہوا انداز اور چہرے پر جھلکتا اعتماد میڈیا کے نمائندوں اور سیاسی مخالفین سب نے دیکھا، حکومتی اقدامات پر تنقید کے نشتر چلانے والی ن لیگ کی قیادت قبل ازیں وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان کے بیانات کو پکڑ کر گھنٹوں شور مچاتی تھی، 13 دسمبر کو عثمان بزدار کی دھواں دار پریس کانفرنس کے بعد ان کی توپوں کا رخ بھی تبدیل ہوا، وفاق اور پنجاب میں موجود ن لیگ کی قیادت میں چند لوگ ہی بچے ہونگے جنہوں نے وزیراعلی کی پریس کانفرنس کے اثرات زائل کرنے کی کوشش نہ کی ہو، دسمبر کی سخت سردی میں پیدا ہونے والے اس گرما گرم ماحول نے ایک بات تو واضح کر دی ہے کہ محتاط انداز میں اپنی اننگز شروع کرنے والا کپتان کا یہ کھلاڑی پنجاب کی پچ پر جارحانہ بیٹنگ کی تیاری کر چکا، عمران خان کا گڈ گورننس کا خواب پورا کرنے کےلئے عثمان بزدار کا اہم موقع پر فارم میں آنا صوبے کی سیاست میں ایک اہم سیاسی کروٹ سمجھاجارہاہے، تجاوزات کے خلاف آپریشن میں مزید تیزی آ چکی، قبضہ مافیا کے خلاف ادارے پہلے سے کہیں زیادہ متحرک ہوچکے، ایل ڈی اے کے ایوانوں میں کھلبلی موجود اور دیگر شعبوں میں بھی ہلچل نظر آ رہی ہے، 100روزہ پلان کے دوران کئے جانے والے ہوم ورک کے مطابق مزید اقدامات اٹھائے جانے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل کمال مہارت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ،جس کی مثال ماضی میں بھی نہیں ملتی کہ آج تک ان کے کسی ایک بھی جملے کی وجہ سے حکومت کو بیک فٹ پر نہیں آنا پڑا۔ وزیر اعلی پنجاب دوراندیش اور ملنسار شخص کے طور پر اپنا تاثر گہرا کرتے جارہے ہیں،عثمان بزدار سے ملاقات کرنے والوں کی بڑی تعداد روزانہ موجود ہوتی ہے لیکن ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ڈیرہ غازیخان نے ہوتا ہے، لاہور میں بیٹھ کر بھی اپنے علاقے کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی فکر کرنے میں کوئی خرابی نہیں لیکن ان کو بہت جلد یہ احساس کرنا ہوگا کہ وہ صرف ایک حلقے کے رکن صوبائی اسمبلی نہیں بلکہ پورے پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں،اپنے علاقے کے عوام کوبھی توجہ دیں لیکن اس طرح کہ صوبے کے دیگر شہروں میں موجود پی ٹی آئی کی قیادت بھی نظر انداز نہ ہو،وزیر اعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق گڈ گورننس کیلئے کسی ایک مخصوص علاقے نہیں بلکہ پورے صوبے میں موجود لوگوں کے دلوں کی دھڑکنوں کو سننا ضروری ہے۔

دوسری جانب عمران خان کے ایک اور کھلاڑی صوبائی وزیر ہائوسنگ میاں محمود الرشید بھی بڑی محنت سے ایک مشکل اننگز کھیل رہے ہیں، پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں میں سے ایک گھروں کی تعمیر کا بھی تھا،صوبائی وزیر ہائوسنگ میاں محمود الرشید کے روزانہ کی بنیاد پر دن رات کے پنجاب بھر کے دوروں کی بدولت دیگر کئی شہروں میں تو اس کی داغ بیل ڈالی جا چکی لیکن لاہور میں وزیر اعظم ہائوسنگ سکیم کےلئے موزوں اور سستی جگہ تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے،12سے 15 لاکھ روپے میں 3 مرلے کا گھر دینے کےلئے درکار اراضی لاہور میں ملنا محال نظر آ رہا ہے، دوسری جانب منشا بم اور دیگر قبضہ گروپوں سے واگزار کرائی جانے والی اراضی اتنی قیمتی ہے کہ وہاں پر بھی سستے گھر بنانا کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہو گا، بہتر یہی ہو گا کہ واگزار کرائی جانے والی اربوں روپے مالیت کی زمینوں کو فروخت کرکے سرمایہ حاصل کیا جائے اور اس اربوں روپے کی خطیر رقم سے لاہور کے نواحی علاقوں میں نیا شہر آباد کیا جائے، میٹرو بس یا بپلک ٹرانسپورٹ کےروٹس اس نئے شہر تک پہنچا کر آمدورفت کے مسائل بھی حل کئے جاسکتے ہیں، اس سے لاہور پر ٹریفک کے دبائو اور ماحولیات کے مسائل میں اضافہ نہیں ہوگا، لاہور میں بے گھر افراد کی اکثریت بڑی بےتابی سے ہاؤسنگ سکیم شروع ہونے کی منتظر ہے لیکن حکومت کی جانب سے انہیں اس بارے میں معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت سسٹم کو درست ٹریک پر لانے کےلیے بھرپور کوشش کر رہی ہے لیکن جو ہو رہا ہے اور ہونے جا رہا ہے اس کے بارے میں عوام کو معلومات کی مسلسل فراہمی کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے، بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک فلاحی منصوبہ تھا لیکن جعل سازوں اور فراڈیوں نے اس کا نام استعمال کرکے معصوم شہریوں کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کیا جو ابھی تک نہیں رک سکا، ہاؤسنگ سکیم کو نوسربازوں کی دست برد سے محفوظ رکھنے کےلئے میاں محمود الرشید اور ان کی ٹیم کو عوام کو بھی باخبر رکھنا ہوگا، نیک مقاصد کی تکمیل کرتے ہوئے شر سے بچنا بھی اہم ہوتا ہے، امید ہے کہ جانفشانی سے کام کرنے والے وزیر ہاؤسنگ میاں محمود الرشید اس چیز کا خاص طور پر خیال رکھیں گے۔

تازہ ترین
تازہ ترین