• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

قبل از وقت انتخابات: حقیقت یا محض سیاسی شوشہ؟

سابقہ ادوار میں ملک کے اہم مناصب پر فائز رہنے والی شخصیات آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سمیت اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین شہباز شریف اور بلاول بھٹو بھی رواں ہفتے اسلام آباد میں ہی موجود رہے اور ان شخصیات کی وفاقی دارلحکومت آمد قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت تھی ۔ جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی اسلام آباد آمد اب عدالتوں میں پیشی کی وجہ سے تقریباً معمول بن چکی ہے بہرحال آصف علی زرداری ، شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی کے اجلاس ہی اس حوالے سے غنیمت ہیں کہ جہاں اُنہیں اظہار خیال اور ملاقاتیں کرنے کے مواقع دستیاب ہیں۔ لیکن قرائن اس طرف واضح  اشارے کررہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ مواقع بھی شاید ہی نصیب ہوں۔ اطلاع تو یہ تھی کہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ملاقات کا بہت زیادہ امکان ہے لیکن بات قومی اسمبلی کے ایوان میں آصف علی زرداری اور شہباز شریف کے مابین رسمی مسکراہٹوں کے تبادلوں اور احوال دریافت کرنے تک ہی محدود رہی یا پھر آصف علی زرداری کی ایوان میں آمد کے موقع پر شہباز شریف کی طرف سے ایوان کے مائیک پر ویلکم زرداری صاحب کا خیرمقدمی جملہ ایک علامتی پیغام کی صورت میں سامنے آیا تھا اور اب کہا یہ جارہا ہے کہ دونوں جماعتیں الیکشن کی تیاریوں کے حوالے سے سیاسی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ لیکن کیا موجودہ صورتحال اور آنے والے حالات میں واقعی نئے الیکشن ہوسکتے ہیں۔ یہ کوئی سوال نہیں بلکہ خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں پر مبنی ایک خام خیالی نظر آتی ہے۔ موجودہ حکومت کو خود اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک ہے کہ اُن کی مقبولیت میں نہ صرف یہ کہ اضافہ نہیں ہوا بلکہ کمی ہی واقع ہوئی ہے اس لیے اگر خود حکومت کی جانب سے قبل ازوقت انتخابات کا کہا جاتا ہے تو یہ محض ایک ’’سیاسی شوشہ‘‘ تو ہوسکتا ہے اس میں حقیقت نہیں ہوسکتی۔ یہ شوشہ چھوڑنے کے بعد کا ردّعمل کیا ہوگا یقیناً حالات پر نگاہ رکھنے والوں نے اس کاجائزہ لینا شروع کردیا ہوگا۔ حکومت کو قومی اسمبلی کی کاروائی جاری رکھنے میں شروع سے ہی مشکلات کا سامنا ہے اور چار ماہ میں برائے نام قانون سازی ہوئی ہے اپوزیشن کی جانب سے پارلیمانی کمیٹیوں کو فعال کرنے کے لیے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ پارلیمانی روایات کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو ہی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنایا جائے لیکن حکومت اور خود وزیراعظم عمران خان بھی کسی طور پر اس بات پر آمادہ نہیں تھے تاہم قومی اسمبلی کی کاروائی چلانے کے لیے اپوزیشن کی اس شرط کو تسلیم کرنا پڑا اور حکومت نے اپوزیشن لیڈر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کا عندیہ دے دیا لیکن رواں اجلاس میں کاروائی جاری رکھنے کے لیے اپوزیشن کی جانب سے دو بڑے مطالبے اہم ایشوز کی شکل میں سامنے آگئے ۔ پہلا مطالبہ تو سابق وزیر ریلوے اور مسلم لیگی راہنما خواجہ سعد رفیق کو جو نیب کی تحویل میں ہیں پروڈکشن آرڈر جاری کرکے ایوان میں لانے کا تھا جس طرح شہباز شریف کو لایا گیا ہے تو دوسرا مطالبہ اہم پارلیمانی کمیٹیوں میں اپوزیشن ارکان کی چیئرمین شپ کا۔ جہاں تک خواجہ سعد رفیق کو ایوان میں لانے کا معاملہ تھا تو اپوزیشن لیڈر نے اجلاس کے پہلے روز ہی یہ واضح کردیا تھا کہ اگر قواعد وضوابط کے مطابق اُنہیں ایوان میں نہ لایا گیا تو اپوزیشن واک آؤٹ کرے گی جبکہ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر اپوزیشن لیڈر کو تسلیاں دیتے رہے کہ اس ضمن میں قانون کا جائزہ لیا جارہا ہے اور پروسس جاری ہے تاہم اس دوران ایوان میں موجود حکومت سے باہر کی تمام سیاسی جماعتیں اس مطالبے پر یکجا ہوگئیں کہ رکن قومی اسمبلی کو ایوان میں لانے کے لیے سپیکر پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں۔ اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی کے سپیکر خواجہ سعد رفیق کو ایوان میں لانے پر آمادہ تھے لیکن حکومت کے بعض وزراء یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتے تھے کہ خواجہ سعد رفیق ایوان میں آکر خود پر لگائے جانے والے الزامات کی صفائی میں اپنا مقدمہ ایوان میں پیش کرنے اور نیب کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کی بجائے اپنے حلقے کی بات کریں گے لیکن نہ تو خواجہ سعد رفیق نے ایسی کوئی یقین دہانی کرائی اور نہ ہی اس حوالے سے اُن کے رفقاء نے کوئی ذمہ داری قبول کی۔ چنانچہ سپیکر نے وقت حاصل کرلیا اور طے شدہ شیڈول کےمطابق اب قومی اسمبلی کا اجلاس بھی اختتام پذیر ہونے والا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن نے قومی اسمبلی کی اُن کمیٹیوں کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے اُن کی سربراہی قبول کرنے سے انکار کردیا ہے جنکی پیشکش انہیں حکومت کی جانب سے کی گئی تھی ان میں موسمی تغیرات ، شماریات ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جیسی کمیٹیوں کی چیئرمین شپ شامل تھی جبکہ اپوزیشن کے قابل ذکر راہنما وزارت خزانہ، داخلہ، خارجہ جیسی اہم کمیٹیوں کی سربراہی پر نظر لگائے بیٹھے تھے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اہم کمیٹیوں کی سربراہی نوجوان ارکان کو دی جائیں گی (جنکی بڑی تعداد حکومتی جماعت سے ہی تعلق رکھتی ہے) تاکہ وہ پورے جوش وجذبے اور عزم کے ساتھ کام کرسکیں ۔ محض مراعات سے فائدہ اُٹھانا اور انفرادی مفادات اور دلچسپی رکھنےوالے ’’بابوں ‘‘کو کمیٹی کی چیئرمین شپ نہیں دی جائے گی۔ امر واقعہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ دیئے جانے پر حکومتی وزراء کے اپنی قیادت کے فیصلے پر خاصے تحفظات ہیں اور وزیر اطلاعات ونشریات نے تو اعلانیہ طور پر اپنے ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے نہ صرف حکومتی بلیک میلنگ قراردیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ ہماری حکومت اپوزیشن کی بلیک میلنگ میں آگئی ہے۔ مفاہمت کے بادشاہ ، سیاسی جادوگر اور اسی طرح کے کئی ناموں کا حوالہ بننے والے پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری گزشتہ ہفتے خاصے جارحانہ موڈ میں دکھائی دیئے ۔ انہوں نے ٹنڈوالٰہ یار میں کیے جانے والے جلسہ عام میں بھی خاصی حد تک اشتعال انگیز انداز اختیار کیا اور دن میں دو دو پریس کانفرنس کرکے بھی اسلام آباد کو کئی پیغام دیئے البتہ ان دنوں اُن کی یہ تمام سرگرمیاں سندھ تک ہی محدود ہیں اور وہ خود بھی۔ حکومت پر تنقید اور الزامات ، اداروں سے شکوہ اور شکائتیں ، ہوسکتا ہے کہ ان میں کچھ صداقت بھی ہو۔ اورجن حالات کا وہ سامنا کررہے ہیں اُن کے پیشِ نظر اس طرزِ عمل میں شاید وہ جائز بھی ہوں ۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین