• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تھوڑے سے مبالغے کی اجازت مانگتے ہوئے بتانا چاہوں گا کہ قیام پاکستان اور متحدہ ہندوستان کی آزادی سے پہلے برٹش انڈیا میں ”بھائیاں دی ہٹی“ کے عنوان سے ایک ادارہ بہت اچھا کاروبار کر رہا تھا۔ دو سکھ بھائیوں بھائی پریم سنگھ اور بھائی نتھا سنگھ پر مشتمل یہ ”ہٹی“ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت ”قرضے“ مارکیٹ کرتی تھی۔ کاروبار کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ بھائی پریم سنگھ بڑے پریم اور سبھاؤ کے ساتھ ضرورت مندوں کو قرضے فراہم کرتا تھا اور بھائی نتھا سنگھ اتنے ہی کرخت اور غصیلے انداز میں اِن قرضوں کی بمعہ سود وصولی کرتا تھا۔ گویا بھائی پریم سنگھ ”ورلڈ بینک“ کا کردار ادا کرتا تھا اور بھائی نتھا سنگھ کا طرزِ عمل ”آئی ایم ایف“ جیسا تھا۔ لوگ اگر بھائی پریم سنگھ سے پیار کرتے تھے تو نتھا سنگھ سے ڈرتے اور نفرت کرتے تھے۔ اس کے نام کے ساتھ ”بھائی“ لگانے سے بھی گریز کرتے تھے مگر آخری تجزیئے میں ”بھائیاں دی ہٹی“ کے کاروبار نے پنجابی لہجے میں ایک انگریزی محاورے کو بھی مارکیٹ کیا کہ
نتھا سنگھ اینڈ پریم سنگھ
ون اینڈ دی سیم تھنگ
یہ بات اور یہ محاورہ مجھے آئی ایم ایف (عالمی مالیاتی ادارہ) کی سربراہ کرسٹائن لیگارد کے اس بیان سے یاد آیا کہ ”امریکہ کا امریکہ سے بڑا دشمن اور کوئی نہیں ہو سکتا“ کرسٹائن کے اِس بیان کو عہد حاضر میں امریکی کردار کے تناظر میں دیکھا جائے تو عالمی سچائی (یونیورسل ٹروتھ) کا درجہ حاصل کر سکتا ہے کیونکہ عراق اور افغانستان پر حملے کر کے امریکہ نے خود اپنی ”سپرمیسی“ کا بھرکس نکال دیا ہے اور پہاڑ کھود کر چوہا بھی برآمد نہیں کر سکا تو واقعی امریکہ کا امریکہ سے بڑا اور کوئی دشمن نہیں ہو سکتا کیونکہ امریکہ نے اپنے سب سے بڑے دشمن سوویت روس کو ختم کر کے اپنے ساتھ سب سے بڑی دشمنی کی ہے جو کہ امریکہ کا پہلا کامیاب خود کش حملہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ دشمنی کشمکش دوستی کی ذمہ دار ہوتی ہے اور ہمارے شاعر سیف الدین سیف نے بالکل صحیح کہا تھا کہ
دشمن گئے تو کش مکشِ دوستی گئی
دشمن گئے کہ دوست ہمارے چلے گئے
مگر ”آئی ایم ایف “ کی سربراہ کا رویہ امریکہ کے خلاف منفی انداز میں نہیں مثبت انداز میں ہے اور بھائی نتھا سنگھ کے کردار سے ملتا جلتا ہے۔ وہ امریکہ کے خلاف باتیں کرتے ہوئے امریکہ کی تعریف فرما رہی ہیں۔ اُن کی شکایت ہے کہ امریکہ دنیا کے مقروض ملکوں سے قرضے وصول کرنے کے سلسلے میں سختی کا مظاہرہ نہیں کر رہا اور بھائی پریم سنگھ کے انداز میں اپنے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے جبکہ بائیں بازو کے ماہرین معیشت کا تجزیہ ہے کہ سرمایہ دار ملکوں کے پاس فی زمانہ صرف قرضوں کا کاروبار رہ گیا ہے اور اس کاروبار میں دولت مند ملکوں نے مقروض ملکوں اور ترقی پذیر قوموں کو بیس سال پہلے اگر ایک ڈالر بطور قرض دیا تھا تو اُن سے دس ڈالر وصول کر چکے ہیں اس کے باوجود قرضے کے حجم میں کوئی کمی نہیں آئی کیونکہ غریب ممالک جب غیر ملکی قرضے کی قسط ادا کرتے ہیں تو اُسی دن وہاں کی کرنسی کی مالیت گر جاتی ہے اور غیر ملکی قرضہ اتنا ہی بڑھ جاتا ہے جتنا کہ پہلے تھا اور ہمارے شاعر میر تقی میر کی طرح غریب ممالک جس کے سبب معاشی تباہیوں کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اُسی عطا ر کے لونڈے سے دوا لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مگر اب تو عطار کا لونڈا بھی انسانی زندگی کے سب سے بڑے مالیاتی بحران کی زد میں آ گیا ہے اور کرسٹائن لیگارد کو اندیشہ ہے کہ یہ بحران پہلے سے بہت زیادہ شدت اختیار کرنے لگا ہے بلکہ سرمایہ داری نظام کے لئے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔
تازہ ترین