• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قلم ہاتھ میں پکڑا تو خیال آیا وارث شاہ نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ عادتیں سر کے ساتھ نبھتی ہیں یعنی عادتیں عمر بھر کی ساتھی ہوتی ہیں لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ کچھ عادتیں زندگی کے سفر میں بے وفا دوستوں کی مانند بدل جاتی ہیں یا ساتھ چھوڑ جاتی ہیں۔ مثلاً میری ایک پختہ عادت ہے جو میرے ساتھ چھ دہائیوں سے نبھ رہی ہے اور وہ یہ کہ میں ابھی تک امتحانی گتے پر کاغذ سجا کر لکھتا ہوں۔دوسرے الفاظ میں اس کیفیت کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ میں امتحانی گتے کے علاوہ لکھ ہی نہیں سکتا۔ لکھنا چونکہ میری عادت اور میری شخصیت کا ناگزیر حصہ ہے اس لئے امتحانی گتہ ہمیشہ میرے ساتھ رہتا ہے ۔میں امریکہ جائوں یا یورپ، امتحانی گتہ میرےسامان کا ضروری حصہ ہوتا ہے ۔ایک بار میں غلطی سے امتحانی گتہ اٹیچی کیس میں نہ رکھ سکا امریکہ پہنچا تو اس کی شدت سے کمی محسوس ہوئی چنانچہ میں شہر کے سب سے بڑے اسٹیشنری اسٹور پر پہنچا جہاں اسٹیشنری کے لاکھوں آئٹم پڑے تھے ۔ گتہ تلاش کرنا شروع کیا تو ناکام رہا سیلز مین سے گتہ دکھانے کو کہا تو اس نے سر سے پائوں تک مجھے یوں دیکھا جیسے میں اصحاب کہف کی مانند کسی غار سے نکل کر آیا ہوں، چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ پھیلا کر بولا سر امتحانی گتہ امریکہ میں پچھلی صدی ہی میں متروک ہو گیا تھا جب طلبا نے کمپیوٹر پر سوالات کے جوابات لکھنے شروع کئے۔ اگر آپ چاہیں تو ہم کسی پسماندہ ملک سے منگوا کر آپ کو دے سکتے ہیں۔ میں نے اس دکان سے چند ایک بال پوائنٹ پین خریدے اور عافیت وہاں سے بھاگنے میں ہی سمجھی۔ مجھے ڈر تھا وہ کہیں پوچھ نہ لے آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں۔

میرے ایک بزرگ دوست ہوا کرتے تھے جنہیں شعرو شاعری کا شوق تھا ان کا ادبی ذوق اعلیٰ درجے کا تھا لیکن ایک لفظ ان کی زبان پر اس طرح ’’چڑھ‘‘ گیا تھا کہ وہ اسے بے دریغ استعمال کرتے اور عام طور پر گفتگو کا آغاز اس لفظ سے کرتے تھے ۔وہ لفظ تھا’’ لطیفہ ‘‘عام طور پر وہ اس طرح کی باتیں کرتے پائے جاتے کہ آج لطیفہ یہ ہوا کہ میں رات بھر بے چین رہا، سو نہ سکا یا آج لطیفہ یہ ہوا کہ صبح ہی صبح بیگم صاحبہ سے جھڑپ ہوگئی ۔ ایک شناسا شخص کے انتقال کی خبر سنی تو مجھے فون کیا ’’لطیفہ یہ ہے کہ فلاں صاحب انتقال فرما گئے ہیں ۔جنازہ دو بجے ہے اگر آپ بھی جانا چاہیں تو اکٹھے چلیں گے ۔آئی ایم سوری ڈاکٹر صاحب لطیفے کا لفظ زبان سے زبردستی نکل گیا ۔‘‘ایک ہمارے محترم دوست سابق فوجی ہیں انہیں ’’سر‘‘ کہنے کی عادت ہے اور وہ ہر فقرہ ہر بات سر سے شروع کرتے ہیں۔ ایک روز ہم دونوں باتیں کرتے اسپتال سے نکل رہے تھے تو ایک نہایت فیشن ایبل خاتون نے انہیں مخاطب کیا ’’ایکسیوزمی ایمرجنسی وارڈ کس طرف ہے ’’ وہ جھٹ سے بولے ’’سر آپ سیدھے جائیں پہلے رائٹ پہ ایمرجنسی وارڈ ہے‘‘ اس خاتون نے انہیں گھورا اور بولیں میں آپ کو ’’سر‘‘ نظر آتی ہوں ؟ یہ صاحب گھبرا گئے اور بولے ’’سر آئی ایم سوری ۔میڈم یہ میری عادت ہے ‘‘ اس خاتون نے غصے سے کہا ایڈیٹ (IDIOT)اور آگے بڑھ گئیں لیکن میں قہقہہ لگائے بغیر نہ رہ سکا ۔ضیاء الحق صاحب چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور مطلق العنان صدر تھے ان کو بات بات پہ ’’اندر‘‘ کہنے کی ایسی عادت تھی کہ ان کی تقریر یا گفتگو ’’اندر‘‘ کے لفظ کے بغیر نہ مکمل ہوتی تھی نہ آگے بڑھتی تھی۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ ہزاروں لوگوں کو اندر کرنے اور قلعے بھجوانے کے باوجود صدر صاحب کی ’’اندر‘‘ کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ وہ اندر کہتے کہتے خود اندر چلے گئے۔ آج کل ہمارے ایک مانوس سیاست دان اکثر ٹی وی چینلوں پر نظر آتے ہیں انہیں ’’یہ جوہے‘‘ کہنے کی عادت ہے وہ اپنی مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے ’’یہ جو ہے‘‘کی اس قدر رٹ لگاتے ہیں کہ میں تنگ آ کر چینل بدل دیتا ہوں ۔ اسی وزن پر ہمارے بعض اینکروں کو ’’ضرور‘‘ کے لفظ کی بدہضمی ہے چنانچہ وہ بار بار کہتے پائے جاتے ہیں کہ ہم یہ ضرور پوچھیں گے ،اس پر ضروربات کریں گے، حکومت سےضرور کہیں گے وغیرہ وغیرہ، چنانچہ وہ چالیس منٹ کے پروگرام میں ’’ضرور‘‘ کا بھرکس نکال کے رکھ دیتے ہیں۔

انسانوں کی عادات بذات خود ایک دلچسپ مطالعہ ہے اور پی ایچ ڈی کا موضوع ہے ۔یہی عادات انسان کی پہچان بن جاتی ہیں بعض حضرات کو ذہانت اور حاضر جوابی کا رعب جمانے کے لئے فقرے بازی کی لت پڑ جاتی ہے ایسے کئی حضرات کو میں کئی دہائیوں سے فقروں کی تلواریں چلاتے، ہر کسی کی گردن مار کر لذت اٹھاتے اور دوسروں کو تھلے لگانے کی کوشش میں مبتلا دیکھ رہا ہوں، لوگ ان کے سامنے سہمے بیٹھے رہتے ہیں کہ ہر کسی کو اپنی عزت پیاری ہوتی ہے۔ فقرے باز اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں چنانچہ وہ دوسروں کے جذبات مجروح کرکے احساس برتری کی لذت میں مست رہتے ہیں ۔

سرکاری ملازمت کی طویل اننگ میں ہزاروں لوگوں سے پالا پڑا اور اولادِ آدم کے کئی رنگ دیکھے۔ عادت شاید ہر شخص کی کمزوری بن جاتی ہے اور اکثر اوقات ہمیں اپنی کمزوری کا علم ہوتا ہے نہ احساس۔ بہت سی عادات بے ضرر ہوتی ہیں لیکن تین عادتیں ایسی ہیں جن کا میں نے بہت مشاہدہ کیا اور انہیں ہمیشہ قابل ِرحم سمجھا۔ اول جھوٹ بولنے کی عادت ،دوم خوشامد کرنے کی عادت، سوم خوشامد کروانے کی عادت۔ جھوٹ بولنے والے حضرات کو اس عادت کا اس قدر اسیر پایا کہ وہ اگر غلطی سے سچی بات کہہ دیتےتو بیمار پڑ جاتے ۔ چنانچہ وہ چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی جھوٹ بولتے تھے۔ خوشامدی حضرات ایسے فنکار تھے کہ ہر شخص کو خوشامد کے شیشے میں اتار لیتے تھے ۔اکثر اوقات وہ چپراسی سے خوشامد کا سلسلہ شروع کرتے اور افسر تک پہنچ جاتے۔ خوشامد کے کلچر کو اقتدار کی راہداریوں اور حکمرانوں کے درباروں میں ترقی کی منزلیں طے کرتے دیکھا، وفا اور محبت کے نام پر حکمرانوں کی قابلیت و مقبولیت کے قصیدے لکھنے پڑھنے والوں کو بلااستحقاق بڑے بڑے عہدے ،معاشی مفادات اور مالی خوشحالی سمیٹتے دیکھا اور جن کے پاس رکشے کا کرایہ بھی نہیں ہوتا تھا انہیں کروڑوں اربوں میں کھیلتے دیکھا۔ گویا خوشامد ایک ایسا فن ہے جس میں زبان یا قلم استعمال کرکے لوگ خزانوں میں سرنگ لگا لیتے ہیں۔ اسی طرح خوشامد کروانے کی عادت میں مبتلا حضرات کو بھی نہایت قابل رحم پایا کہ جب تک خوشامد سے ان کی انا کی تسکین نہ ہو جاتی وہ نہایت بے چین رہتے۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ میں نے چھوٹی چھوٹی سی عادات کا ذکر کیا ہے ورنہ ایسی عادات بھی دیکھیں جن پر لکھتے ہوئے قلم شرماتا ہے ۔ مختصر یہ کہ سہراب پہلوان ہو یا کوئی طاقتور حکمران، اعلیٰ افسر ہو یا دولت مند،اکثریت کو عادت کے سامنے بے بس پایا یعنی ہر کوئی عادت ’’توں‘‘ مجبور تھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین