• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں سرکاری ڈے کیئر سنٹرز نہیں ہوتے، لیکن ہمارے خاندانوں میں نانی اماں، دادی اماں ضرور ہوتی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ اگر ہمارے ہاں اولڈ ہومز نہیں تو ہمارے بچے اپنے بزرگوں کی خدمت اپنے لیے سعادت کا باعث سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ خاندان صرف درمیانے طبقے اور دولت مند افراد کے لیے ہی موثر انداز میں کام کرتا ہے ۔ اسی معاشرے کے بہت سے دھڑے مفلسی کی اذیت برداشت کرتے ہیں ۔ وہ اپنے بچوں کو کھانا کھلانے ، تعلیم دینے یا اُنہیں مناسب گھروں میں رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 125بلین روپے کا خطیر بجٹ رکھنے والا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ریاست کی سرپرستی میں چلنے والے کچھ دیگر پروگرامزکے باوجود ہماری حکومتیں معاشرے کے غربت زدہ طبقات کی مناسب کفالت نہیں کرپاتیں۔

اس پس منظر میںعلامہ بشیر فاروقی جیسے افراد اور اُن کے سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کی اہمیت محسوس ہوتی ہے ۔ علامہ صاحب درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک بزنس مین تھے ۔ لیکن وہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کرنے کو ہی کافی نہیں سمجھتے تھے ۔ اُن کے ارادے کہیں بلند تھے۔ اُنھوں نے اپنے ملازم کو کاروبار میں اپنا شراکت دار بنایا، کاروبار چلانے کی ذمہ داری اُسے سونپ دی اور خود کو ہمہ وقت انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔

پانچ مئی 1999ء کو علامہ بشیر فاروقی نے سیلانی ٹرسٹ کی بنیاد رکھی ۔ آج یہ تنظیم روزانہ 63ہزار افراد کو کھانا کھلاتی ہے ۔ اس کے پلیٹ فارم سے کراچی، حیدرآباد، فیصل آباد، ٹھٹھہ، چنیوٹ، کوئٹہ اور راولپنڈی میں روزانہ مفت کھانا کھلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کی تنظیم شام کی سرحد کے ساتھ ترکی کے علاقے اور بنگلہ دیش ، جہاں روہنگیا مسلمان پناہ لیے ہوئے ہیں، میں بھی طعام کا اہتمام کرتی ہے۔

ہر ماہ سیلانی ٹرسٹ 50,000مریضوں کو مفت طبی سہولیات فراہم کرتا ہے ۔ اس میں ڈاکٹروں سے طبی مشورے کی فیس، ایکس ریز، لیب ٹیسٹ، اسپتالوں میں داخلہ اور ادویات کا خرچہ شامل ہے ۔ مریضوں کو ہر چیز مفت فراہم کی جاتی ہے۔ سیلانی ٹرسٹ کراچی میں بارہ ’’مدر اینڈ چائلڈ سنٹرز ‘‘ چلاتا ہے ۔ان سنٹرز پر مائوں کو طبی سہولت فراہم کی جاتی ہے، یاضرورت کے مطابق کسی اسپیشلسٹ کی خدمات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔

سیلانی تنظیم کراچی اور حیدر آباد میں اسکول بھی چلاتی ہے ۔ ان اسکولوں میں 10ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ سیلانی ٹرسٹ کے زیر ِ اہتمام تھرپارکر میں چلنے والے اسکولوں میں پانچ ہزار طلبہ داخل ہیں۔ یہ اسکول حکومت کی تجویز کردہ بنیادی تعلیم فراہم کرنے کے علاوہ طلبہ کو ناظرہ قرآن پاک کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ ان اسکولوں کی کوئی فیس نہیں بلکہ طلبہ کو کتابیں اوردیگر تعلیمی مواد مفت فراہم کیا جاتا ہے ۔

گزشتہ چند برسوں سے سیلانی ٹرسٹ نے آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت کی ٹریننگ کے شعبے میں قدم رکھا ہے ۔ اس کے کراچی اور فیصل آباد کے کیمپسز میں چار ہزار طلبہ ٹریننگ حاصل کررہے ہیں۔ اُنھوںنے پاکستان بھر میں پچاس سے زائد پانی صاف کرنے والے پلانٹس لگائے ہیں۔ ان میں سے تیس صرف فیصل آباد میں ہیں۔ سیلانی ٹرسٹ رہائش فراہم کرنے سے لے کر پیشہ ورانہ فنون کی ٹریننگ تک بہت سی خدمات سرانجام دے رہاہے۔

تاہم اس تنظیم کا بہترین پہلویہ ہے کہ دس ملین روپے یومیہ کا بجٹ رکھنے کے باوجود یہ منظم طریقے سے فنڈز جمع نہیں کرتی ، لوگ خود آکر اسے ضرورت کی رقوم فراہم کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے افراد مختلف طریقوں سے ان کی معاونت کرتے ہیں۔ بہت سی ادویہ ساز کمپنیاں اس کی شاندار خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں ادویات عطیہ کردیتی ہیں۔ بہت سے سینئر ڈاکٹرز ہر ہفتے اپنے وقت میں سے کچھ گھنٹے ان کے لیے وقف کرتے ہوئے مریضوں کو بلامعاوضہ دیکھتے ہیں۔ سیلانی ٹرسٹ کسی غیر ملکی حکومت یا غیر ملکی تنظیم سے رقم نہیں لیتا۔

سیلانی تنظیم کی کوشش ہوتی ہے کہ اُسے جس شہر سے رقم حاصل ہو، وہ اُسی شہر پر خرچ کی جائے تاہم کراچی سے حاصل ہونی والی رقوم دیگر علاقوں پر خرچ ہوتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کراچی باقی پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ دولت رکھتا ہے، لیکن اس سے بھی اہم یہ کہ اس شہر میں فلاحی کاموں کے لیے خرچ کرنے کا جذبہ بہت زیادہ ہے ۔ سیلانی ٹرسٹ کو ملنے والی رقوم کا حجم بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی خدمات کا دائرہ کار بڑھا تا جائےگا۔

پاکستان کی ہر سیاسی جماعت نے بلدیہ فیکٹری میں لگنے والی آگ، جس میں تین سو افراد جاں بحق ہوگئےتھے، پر بیانات دیے، لیکن یہ سیلانی تنظیم ہے جو اپنے پروگرام ’’کفایت ‘‘ کے ذریعے متاثرہ خاندانوں کی کفالت کررہی ہے ۔ آج بھی سیلانی ان خاندانوں کی خوراک، صحت، تعلیم اور بلوں کی ادائیگی کا خیال رکھتی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ ان خاندانوں کے سولہ سال سے کم عمر بچے ضرور اسکول جائیں اور جن کی عمر اس سے زیادہ ہے ، وہ اگرچاہیں تو تعلیم جاری رکھیں یا کوئی پیشہ اختیار کرلیں۔ ان 250خاندانوں کے علاوہ 15ہزار خاندان ایسے ہیں جن کا سیلانی ٹرسٹ خیال رکھتا ہے ۔

ان مشکل معاشی حالات میںلوگ اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں پاکستانی معیشت کے سامنے کیا امکانات دیکھتاہوں۔ میں اُنہیں بتاتاہوں کہ مجھے پاکستان پر بے حد اعتماد ہے ۔ پاکستان صدمات کے بعد خود کو سنبھالنے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے ۔ ہم ہر مشکل سے نمٹ کر آگے بڑھنے کا جذبہ اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ میرے نزدیک پاکستانی معیشت ایک مضبوط ، پائیدار اورقابل ِ اعتماد کار جیسی ہے ۔ اس وقت ہم جھٹکوں اور ہچکولوں والی سڑک پر سے گزر رہے ہیں۔ اس مشکل سفر میں کبھی یک لخت بریک لگانا پڑتی ہے، کبھی اچانک ریس دینا پڑتی ہے ، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم آخر کار ہائی وے تک پہنچ کر درست سمت میں ہموار شاہراہ پر گامزن ہوجائیں گے۔

اس وقت اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا عمل جاری رہے ، اوربزنس ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی نہ اپنائے ۔ چنانچہ حکومت کو کاروباری معاملات پر سنجیدگی سے توجہ دیتے ہوئے بے یقینی کی فضا کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ گیس کی فراہمی میں اچانک تعطل یا بجلی کے بلوں میں یک لخت اضافہ اُن وعدوں کی خلاف ورزی ہے جو ہم نے صنعت سے کیے تھے ۔ یہ ملک میں کاروباری اور صنعتی ماحول کے لیے اچھا نہیں ۔ ضروری ہے کہ حکومت اپنے الفاظ کی لاج رکھے اور معاشی سرگرمیوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے۔ اس صورت میں پاکستانی معیشت دوبارہ ہموار راہ پر ترقی کا سفر شروع کردے گی۔

(صاحب ِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین