• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال کی طرح آج سے چند دن بعدپچیس دسمبر کو ہم اپنے عظیم لیڈر قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ منائیں گے، بانی پاکستان قائداعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان کے بعداظہار افسوس کیا تھا کہ میری جیب میں جو کھوٹے سکے ہیں، ان کا میں کیا کروں؟ اس حوالے سے علمی حلقوں میں آج بھی بحث جاری ہے کہ آیا انہوں نے یہ الفاظ اداکئے تھے یا نہیں؟ اور اگر کئے تھے تو کھوٹے سکوں کا اشارہ کس کی طرف تھا؟قائد کی وفات کے بعد پاکستان جس طرح اپنی منزل سے دور ہوتاگیا ، اس نے قائداعظم کے ان الفاظ کو سچ ثابت کردکھایا۔ مجھے عظیم قائد سے منسوب یہ الفاظ گزشتہ دنوں شدت سے یاد آئے جب میں نے قومی اسمبلی میں غیرمسلم اقلیتوں کے نام پر شراب کے گھناؤنے کاروبار کی روک تھام کیلئے بل پیش کیا، میں نے اپنی تقریر میں واضح کردیا تھا کہ مجھے کسی کے قول و فعل سے کوئی سروکار نہیں، کوئی شراب پیتا ہے یا کوئی اور غلط کام کرتا ہے تو وہ جانے اسکے اعمال جانیں۔میرا پاکستان میں شراب کے کاروبار پر پابندی پر بل پیش کرنے کا واحدمقصد یہی تھا کہ اس غلیظ دھندے کو کسی بھی مذہب سے منسلک نہ کیا جائے، کیونکہ دنیا کا ہر دین دھرم انسانیت کی بھلائی یقینی بنانا چاہتا ہے،میرے اس موقف سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہر مذہب انسانیت کی بھلائی کیلئے خدا کے احکامات پر عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے تاکہ انسان خدا کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ایک مفید اور کارآمد شہری ثابت ہو جبکہ شراب نوشی کرنے والاخدا کی نافرمانی کرکے معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث بنتا ہے،اسی طرح ایک پرامن معاشرے کا دارومدار دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کا احترام کرنے میں ہے۔ میں نے دنیا کے تمام مذاہب کا مطالعہ کیا ہے اور میں دلائل سے کہتا ہوں کہ اُم الخبائیث شراب تمام مذاہب میں حرام ہے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میںشراب کی خرید و فروخت غیرمسلموں کے نام پر کرنے کی اجازت ہے،آئین ِ پاکستان کے آرٹیکل 37hکے مطابق ملک بھر میںشراب پر پابندی ہے ماسوائے غیرمسلموں کے جو اپنے مذہبی تہواروں پر شراب استعمال کرسکتے ہیں۔ مجھ سمیت پاکستان بھر کے غیرمسلموں کو اس شق پر شدید تحفظات ہیں، میرے اس موقف کی تصدیق مذہبی علماء ، پنڈت، پادری اور اسکالر حضرات سے بھی کرائی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے نمایاں بڑے غیر مسلم مذاہب بشمول ہندومت، سکھ مت، کرسچین اور بدھ مت وغیرہ میں کسی مذہبی تہوار پر شراب استعمال نہیں کی جاتی لیکن پاکستان میں سال کے 365 دن شراب کی خرید و فروخت جاری رہتی ہے، پاکستان میں غیرمسلموں کی اتنی آبادی نہیں جتنی شراب کی کھپت ہے ۔ میری نظر میں ہر مذہبی تہوار اپنے اندر ایک مقدس روحانی پیغام سموئے ہوتا ہے اور اس موقع پر خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے عذابِ الہیٰ کو دعوت نہیں دی جاسکتی۔ میں بالکل اس بات سے متفق ہوں کہ خدا کے واضح احکامات کے باوجود شراب نوشی ہر دور میں اورہر جگہ کی جاتی ہے لیکن شراب پینے والے کو فقط ایک شرابی سمجھا جانا چاہئے جو کسی بھی مذہب کا پیروکار ہوسکتا ہے،اسلئے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں شراب نوشی کو مذہب سے نتھی کرنا سراسر ناانصافی اورتوہین مذہب کے زمرے میں آتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ دنیا کی وہ تمام قومیں تباہ و برباد ہوگئیں جنہوں نے خدا کے راستے سے بھٹک کر منافقت کا راستہ اختیا ر کیا۔ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے پاکستان سے مذہب کے نام پر شراب پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا، میری یہ جدوجہد کوئی آج کی بات نہیں بلکہ میں گزشتہ پانچ برسوں سے اس عظیم کاز کیلئے مصروف عمل ہوں، میں نے گزشتہ حکومت میں بھی اس سماجی ناسور کے خلاف بل پیش کیا جس پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ گزشتہ ستر سالہ تاریخ میں ہر حکومت نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے کے دعویٰ ضرور کئے لیکن عملی طور پر پاکستانی معاشرے کو اکثریت اور اقلیت کے مابین تقسیم کرکے مفادات کی سیاست کی،وزیراعظم عمران خان کی زیرقیادت پاکستان تحریک انصاف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ نیا پاکستان میں مدینہ ماڈل اپنانے کا واضح اعلان کیاگیا۔مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست میں جب پیغمبراسلامﷺنے شراب کو حرام قرار دینے کا اعلان فرمایا تو اس موقع پر بعض لوگوں نے پوچھا کہ ہم غیرمسلموںکوبطور تحفہ کیوں نہ دے دیں ؟ آپ نے تحفہ دینے سے بھی منع کر دیا ہے ، شراب کو ادویات کے استعمال کے حوالے سے مزید فرمایا کہ نہیں وہ دوا نہیں بلکہ بیماری ہے اور یوں شراب مدینہ منورہ کی گلیوں میں بہا دی گئی۔ پاکستان میںشراب کا گھناؤنا کاروبار ہم جیسے محب وطن غیرمسلم پاکستانیوں کی نیک نامی کا بھی معاملہ ہے، معاشرہ ہماری تمام قابلیت اور صلاحیتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ہمیں شراب کے گھناؤنے کاروبار سے نتھی کرتا ہے،ہمارے آس پاس ایسے بے شمارنامی گرامی لوگ پائے جاتے ہیں جنہوں نے غریب غیرمسلم باشندے ملازم رکھے ہوئے ہیں اور انکے نام پر شراب لیکر وہ خود پیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر انہیں شراب پینے کا اتنا ہی شوق ہے تو اپنے نام پر خریدیں ، خدارا کسی مذہب کو بدنام نہ کریں۔ پارلیمان، عدلیہ اور میڈیا کے پلیٹ فارم پر اپنی پرامن جدوجہد کو آگے بڑھانا میرا جمہوری شہری حق ہے لیکن مجھے نہایت دکھ ہواکہ جب قومی اسمبلی میں میرے پیش کردہ آئینی ترمیمی بل کی حمایت کرنے کی بجائے اراکین اسمبلی نے روڑے اٹکائے ، بالخصوص حکومتی ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری ملک بھر میں بسنے والے محب وطن پاکستانیوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کا باعث بنےہیں، یہ کتنی مضحکہ خیزصورتحال ہے کہ ہم غیرمسلم کہہ رہے ہیں کہ ہمیں شراب منع ہے لیکن مسلمان وزیر کہہ رہا ہے کہ جسکوشراب پینی ہے وہ پیئے،میں سمجھتا ہوں کہ غیرمسلم اقلیتوں کے خلاف ایسا ناپسندیدہ عمل ہی امریکہ اور عالمی برادری کو مذہبی آزادی کے حوالے سے بنیاد فراہم کرتا ہے کہ وہ ہمارے پیارے وطن کو بلیک لسٹ میں شامل کرے۔ میںقومی اسمبلی میں ایم ایم اے اراکین، میڈیا کے دوستوں، معزز علماءکرام، مذہبی رہنماؤں، سول سوسائٹی سمیت ان تمام خواتین و حضرات کا مشکور ہوں جنہوں نے میری اس عظیم جدوجہد کی حمایت کی۔خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے میرے اس نیک نیتی پرمبنی اقدام نے معاشرے کو جس مثبت انداز میں متحرک کیا ہے ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت مثبت انداز میں ملک و قوم کی خدمت کرنے کیلئے پرعزم ہے، میں جانتا ہوں کہ حق و سچائی کے راستے میں بے شمارمشکلات آتی ہیں ، اسلئے میں نے ہمت نہیں ہاری اور ایک بار پھر بل جمع کراتے ہوئے رائے شماری کا مطالبہ کیا ہے تاکہ عوام جان سکیں کہ کون ریاست مدینہ ماڈل نافذکرنے میں سنجیدہ ہے اور کون اسے محض سیاسی نعرہ سمجھتا ہے ، یہ ایک ایسا اہم ایشو ہے کہ اس پر ریفرنڈم بھی کرایا جاسکتا ہے ۔ پاکستانی عوام عمران خان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ بطور پی ٹی آئی پارٹی سربراہ اور وزیراعظم پاکستان پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں آنے والے غیرضروری بیانات کا بروقت نوٹس لیں گے ورنہ نئے پاکستان کیلئے تحریک انصاف کے بلند عزائم کوکھوٹے سکوں کی موجودگی کی بناء پر سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین