• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چاوپرایا(Chaophraya) تھائی لینڈ کے شہر بنکاک کے وسط میں بہنے والے دریا کا نام ہے ۔ جناح انسٹی ٹیوٹ اور آسٹریلیا انڈیا انسٹی ٹیوٹ نے چند سال قبل بنکاک میں پاکستان اور ہندوستان کے مابین ٹریک ٹو مذاکرات کا آغاز کیا تواس سلسلے کو چاوپرایا ڈائیلاگ کا نام دیا گیا۔ پچھلے چند سالوں کے دوران اس کے دس سیشن ہوچکے ہیں اور اب ہم گیارویں سیشن کے حصے کے طور پر بنکاک میں موجو د ہیں۔ اس میں پاکستان کی نمائندگی عزیز احمد خان ‘ رستم شاہ مہمند‘ آیاز وزیر‘ ماروی سرمد‘ ڈاکٹر عائشہ غوث‘ حمیداللہ جان آفریدی‘ ڈاکٹر ظفرسرفراز چیمہ‘ ڈاکٹر اعجاز نبی اور یہ طالب علم کررہے ہیں جبکہ ہندوستان سے کانگریس پارٹی کے ترجمان راشد علوی‘ ایڈمرل (ر) وجے شنکر‘ پروفیسر ایلاپتنائک‘ ویوک کاٹجو (سابق سفیر برائے ہندوستان) ‘ جے پاندا(ممبر پارلیمنٹ )‘ گوپال سوامی پاتاساراتی (جو کارگل کے دنوں میں پاکستان میں ہندوستان کے ہائی کمشنر تھے) ‘ نروپاما سبرامینیم اور امیتاب ماٹو( سابق وائس چانسلر جموں یونیورسٹی) شریک تھے۔ اب کے بار افغانستان‘ نیوکلیئر ڈیٹرنس ‘ تجارت اور عوامی روابط کے موضوعات زیربحث تھے اور چاروں ایشوز سے متعلق گروپ نے جامع سفارشات بھی مرتب کیں۔ ان سفارشات پر کتنا عمل ہوتا ہے اور پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے اس فورم کی کاوشیں کتنی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہیں ‘ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم اس تین روزہ ڈائیلاگ کے دوران ہم جیسے طالب علموں کو ہندوستان کی سوچ کو سمجھنے کا اچھا موقع میسر آجاتا ہے ۔اب کے بار میں نے جو مجموعی تاثر اخذ کیا ‘وہ کچھ یوں ہے کہ ہندوستان بھی امن چاہتا ہے ۔ وہ افغانستان اور پاکستان کے راستے وسط ایشیائی مارکیٹ تک پہنچنے کے لئے بے تاب ہے ۔ جتنا وہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں غیرسنجیدہ ہے ‘ اتنا وہ دو طرفہ تجارت کے عمل کو آگے بڑھانے میں سنجیدہ ہے ۔ وہ پاکستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں سے توانائی کے حصول کے لئے بھی تڑپ رہا ہے لیکن ہماری توقعات کے برعکس سردست وہ سیاچن‘ سرکریک اور کشمیر کے ایشوز پر لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ ہم انہیں قائل کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ پاکستان میں مجموعی سوچ یکسر تبدیل ہوئی ہے لیکن کارگل اور ممبئی کی مثالیں دے دے کر وہ اپنی بداعتمادی کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ سردست ممبئی کا واقعہ بڑی رکاوٹ ہے ۔ ہندوستان کے لوگوں کو چونکہ ان کے سیاستدانوں اور میڈیا نے یہ ذہن نشین کرادیا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے کسی نہ کسی شکل میں پاکستانی ریاست کا ہاتھ تھا ‘ اس لئے وہاں کی قیادت اب خود رائے عامہ کی یرغمال بن چکی ہے ۔ وہ لچک دکھانا چاہے تو عوام کی طرف سے اپنی قیادت کو ممبئی یاد دلائی جاتی ہے ۔ ہم انہیں بتاتے رہے کہ پاکستان میں اجمل قصاب کے حق میں کوئی مظاہرہ نہیں ہوا اور ان کے حق میں صرف ان طالبان کی طرف سے بیان آیا ہے جو پاکستانی فوج کے ساتھ بھی حالت جنگ میں ہیں لیکن لشکر طیبہ کے خلاف ان کی مرضی کے مطابق کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ پاکستان کو بری الذمہ قرار دینے کے روادار نہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر غلطی یا زیادتی ہندوستان کی طرف سے یہ ہورہی ہے کہ وہ ہر فورم پر یہ تنبیہہ دیتے رہتے ہیں کہ ممبئی جیسا کوئی اور واقعہ رونما ہوا تو یہ ہندوستان کے لئے ناقابل برداشت ہوگا۔ بعض اوقات اس میں دھمکی کا عنصر بھی نظر آتاہے جس کی وجہ سے مذاکرات کا ماحول تلخ ہوجاتا ہے ۔ اب المیہ یہ ہے کہ پاکستانی حکومت جو کہ اپنے جی ایچ کیو اور عسکری مراکز پر حملوں کو نہ روک سکی ‘ کس طرح ہندوستان کو گارنٹی دے سکتی ہے کہ ممبئی جیسا کوئی اور واقعہ رونما نہیں ہوگا ۔ ہندوستانی نمائندگان کو میں سمجھاتا رہا کہ ممبئی کے واقعات پر ان کا یہ موقف خود مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی راہ ہموار کرتا ہے کیونکہ آپ کے اس موقف کی وجہ سے عسکریت پسندوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اس طرح کی ایک کارروائی سے امن کا تمام عمل تلپٹ ہوسکتا ہے ۔ چنانچہ ان کے لئے اس طرح کی کارروائی کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے لیکن اگر ان کو یہ پیغام ملے کہ اس طرح کی کارروائی کے دور رس اثرات مرتب نہیں ہوں گے اور صرف ان کے لوگوں کی جانیں ضائع ہوں گی تو پھر وہ اس طرف جانے سے بھی گریز کریں گے لیکن ہندوستانیوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ اگر پاکستان چاہے تو وہ اس طرح کے واقعات کا تدارک کرسکتا ہے ۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان میں داخلی سیاست زوروں پر ہے اور کرپشن کا ایشو ہی عوامی توجہ کا مرکز بن گیا ہے ۔ یوں وہاں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے ایشو کو وہ اہمیت نہیں مل رہی جو ملنی چاہئیے اور اس لئے وہاں کی قیادت کے لئے یہ ایک ثانوی مسئلہ بن گیا ہے ۔ ایک اور نتیجہ جو میں نے اس طرح کے مذاکرات میں شرکت سے اخذ کیا ہے ‘ یہ ہے کہ پاکستان میں جس طرح ریٹائرڈ جرنیل ہندوستان کے بارے میں روایتی سوچ سے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے ‘اسی طرح ہندوستان میں یہی روش ان کے ریٹائرڈ سفارت کاروں نے اپنا رکھی ہے ۔ وہاں چونکہ فوج کو وہ حیثیت حاصل نہیں جو پاکستان میں اسے حاصل ہے تو بدقسمتی سے ان کے ہاں وزارت خارجہ پاکستان سے متعلق ”فوجی“ سوچ کی حامل بن گئی ہے ۔ میں نے محسوس کیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہندوستانیوں کے سروں پر اتنا سوار نہیں جتنا کہ وہ امریکیوں اور یورپین کے سروں پر ہے بلکہ اس حوالے سے پاکستان اگر ہتھیاروں میں کمی جیسی تجاویز دیتا ہے تو ہندوستان یہ کہہ کر آگے بڑھنے سے معذرت کرتا ہے کہ ان کا ایٹمی پروگرام پاکستان کو مدنظر رکھ کر نہیں بلکہ چین وغیرہ کو مدنظر رکھ کر چلایا جارہا ہے ‘ اس لئے اس پر پاکستان کے ساتھ برابری یا موافقت کے لئے دو طرفہ معاملہ نہیں کرسکتے ۔ ہم جیسے لوگ توقع اور مطالبہ کرتے ہیں کہ تجارت کے معاملات پر پاکستان کے لچک کے جواب میں ہندوستان کو بھی کم ازکم سرکریک اور سیاچن کے معاملات پر لچک دکھانا چاہئیے اور جب ہندوستان لچک نہیں دکھاتا تو پاکستان میں ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے علمبرداروں کی پوزیشن کمزور اور جنگی لابی کی مضبوط ہوجاتی ہے لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ تجارت اور دیگر ذرائع سے مناسب اعتماد سازی کے بعد ان مسائل کے حل کی راہ خودبخود ہموار ہوجائے گی ۔ ان کے اس موقف میں بھی وزن ہے لیکن سوال پھر یہ اٹھتا ہے کہ اگر ممبئی جیسا کوئی اور واقعہ رونما ہوا تو پھر کیا ہوگا؟۔ ظاہر ہے اس صورت میں اعتماد سازی کے تمام منصوبے ایک بار پھر خاک میں مل جائیں گے اور جب ان منصوبوں کے خاک میں مل جانے کا خطرہ موجود ہوگا تو پھر دونوں طرف کے تاجر‘ صنعت کار اور خود پالیسی ساز بڑے تجارتی منصوبوں کا رسک کیونکر لیں گے ؟۔ چنانچہ اس خوف کو مٹانے کے لئے ضروری ہے کہ ہندوستان ممبئی پر اپنائے گئے موقف میں لچک دکھائے یا پھر کم از کم دونوں ممالک ایسا میکنزم بنالیں کہ ممبئی جیسی کارروائی کی صورت میں مناسب فورم اور مجوزہ اقدامات کا خاکے موجود ہوں جو تلخی کو بڑھنے سے روکیں۔ باہمی تعاون اور اعتماد سازی کا ایک اور ذریعہ افغانستان ہوسکتا ہے ۔ سردست یہ بدقسمت ملک ہندوستان اور پاکستان کے مابین کشمکش کا میدان بنا ہواہے ۔ ہندوستان کسی بھی شکل میں طالبان کی دوبارہ آمد کو اپنے لئے اس سے کئی گنا زیادہ خطرہ سمجھتا ہے جتنا کہ امریکہ سمجھ رہا ہے ۔ دوسری طرف پاکستان بھی انارکی کے شکار افغانستان کو اپنے لئے شدید خطرہ تصور کررہا ہے ۔ اسی طرح افغانستان میں امن کے بغیر ہندوستان کا وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔ یوں اگر ایک دوسرے کے ساتھ گندی مسابقت کی بجائے پاکستان اور ہندوستان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو نہ صرف دونوں کے خدشات رفع ہوسکتے ہیں بلکہ افغانستان میں امن کے قیام کا عمل بھی نسبتاً آسان بن جاتا ہے ۔ ایسا ہوا تو ماضی کے برعکس افغانستان دونوں ممالک کے مابین پراکسی جنگ کے میدان کی بجائے تعاون اور دوستی کا وسیلہ بن سکتا ہے ۔
تازہ ترین