• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی کبھی میں اپنے ذہن میں یہ تصویر بنانے کی کوشش کرتا ہوں کہ ایوان اقتدار کے کسی پرجلال گوشے میں فیصلے کی میز سجی ہے اور اس کے گرد وہ چند افراد بیٹھے ہیں جن کے لئے اسلام آباد میں ”روٹ“ لگتا ہے یعنی سڑکیں بند کر دی جاتی ہے۔ ملک کی سلامتی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ پورے ملک کی صورتحال ان کی نظر میں ہے۔ ریاست کی بے پناہ، جابرانہ قوت کی باگ ان کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ سب جانتے ہیں کہ کون، کہاں، کیا کر رہا ہے۔ سینما کی اسکرین پر جیسے منظر بدلتے ہیں اسی طرح ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے واقعات انہیں دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ خبروں کی سرخیوں کے پس منظر سے بھی آگاہ ہیں۔ خفیہ اداروں کے ان گنت کارندوں کی جمع کی ہوئی تفتیش کا نچوڑ ان کے سامنے رکھی ہوئی فائلوں میں موجود ہے۔ اپنے ذہن میں یہ تصویر تو میں بنالیتا ہوں لیکن اس سے آگے کیا ہوتا ہے، ہو سکتا ہے یا ہونا چاہئے، اس کا تصور میرے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ فیصلے کی میز تو سجتی رہتی ہے لیکن فیصلے کیا ہوتے ہیں، اس کی کوئی خبر ہمیں نہیں ملتی۔ جو ہوتا رہا ہے، ہوتا رہتا ہے دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ ہلاکتیں ہوتی رہتی ہیں۔ خود اقتدار کی فیصلوں پر یلغار جاری ہے۔ افراتفری اور بدعنوانی کا دور دورہ ہے یہ سب ہے اور فیصلے کی میز سجی ہے اور انتہائی بارعب اور باوقار شخصیات اپنی کرسیوں پر بیٹھی ہیں۔
یہ ہم جانتے ہیں کہ افراد اور قوموں کی زندگی میں ایسے واقعات اور حادثات ہوتے ہیں جو ان کی زندگی کو یکسر بدل دیتے ہیں۔ ابھی اتوار کے دن ہم نے سولہ دسمبر 1971ء کی تپش کو ایک بار پھر محسوس کیا۔ لیکن جب بھی سقوط مشرقی پاکستان کا ذکر ہوتا ہے، یہ جملہ دہرایا جاتا ہے کہ ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ دسمبر کے مہینے کے ایک اور ناقابل فراموش المیئے کی سالگرہ چند روز بعد آ رہی ہے۔ پانچ سال قبل 27/دسمبر کو دہشت گردوں کے ہاتھوں بے نظیر بھٹو کے قتل نے فوری طور پر پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس طرح کے ردعمل کی کوئی اور مثال ہماری تاریخ میں نہیں ہے۔ ملک کی تقدیر کو بدل دینے والے اس سانحے نے بھی دہشت گردوں کے خلاف کسی فیصلہ کن کارروائی کا جواز فراہم نہیں کیا۔ یوں تو 18/اکتوبر کو ان کے شاندار استقبال کے موقع پر کراچی میں جو دھماکے ہوئے وہ بھی ایک بڑے فیصلے کا سبب بن سکتے تھے۔ پاکستان کی بدنصیبی کی داستان بیان کی جائے تو کوئی نہ کوئی یہ ضرور کہے گا کہ پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سامنے دو راستے ہیں اور ان میں سے ایک کو چننا ضروری ہے۔ انگریزی میں جو لفظ استعمال ہوتا ہے اس کا مطلب چوراہا ہے۔ مفہوم وہی ہے کہ اب فیصلہ کرنے کی گھڑی ہے بلکہ فیصلہ ناگزیر ہے۔ اپنی ذاتی زندگی میں ہم سب ایسی صورتحال سے واقف ہیں جب ہمیں بالکل متضاد چیزوں میں سے کسی ایک کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ کی ایک نظم بہت مشہور ہے کہ ایک جنگل میں چلتے چلتے میرے سامنے دو راستے آ گئے اور مجھے ان میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا کیونکہ میں اکیلا مسافر، دونوں راستوں پر تو چل نہیں سکتا تھا۔ اور تب میں نے غور سے دونوں راستوں کو دیکھا اور اس راستے کا انتخاب کیا جس پر کم لوگوں کے قدموں کے نشان تھے اور اسی نے میری زندگی بدل دی۔ انسانی تاریخ بھی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ کیسے ایک واقعہ نے سب کچھ بدل دیا۔ ہاں، جو فیصلہ کیا جاتا ہے اس کی دلیل پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ معروضی حالات ایک خاص طرح کی صف بندی کرچکے ہوتے ہیں۔ اکثر کوئی واقعہ محض جلتی پر تیل چھڑکنے کا سبب بنتا ہے۔ مثلاً فرانس کے انقلاب کا آغاز، پیرس میں باستیل کے قید خانے پر عوام کے حملے کو مانا جاتا ہے گو اس انقلاب کی بنیادیں فرانس کے ذہنی، سماجی اور سیاسی ہیجان میں پوشیدہ تھیں۔
سقوط مشرقی پاکستان کو چار دہائیاں بیت گئیں۔ گزشتہ چند سالوں میں جو کچھ ہوا ہے وہ ایک ایسا المیہ ہے جو ابھی جاری ہے۔ بار بار ہم نے خود کو ایک دوراہے پر یا یوں کہیئے کہ ایک اہم موڑ پر پایا لیکن جو افراد فیصلے کی میز پر بیٹھے تھے انہوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ کوئی بگل نہیں بجایا۔ کوئی پرچم نہیں اٹھایا۔ کوئی پیش قدمی نہیں کی۔ معاملات جوں کے توں رہے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم پر کسی بات کا کوئی خاطر خواہ اثر ہی نہیں ہوتا۔ ہر وار برداشت کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ جو حکمراں ہیں اور جنہیں زعم کمانداری ہے وہ کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرتے۔ وہ کئی راستوں میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب نہیں کرتے۔
جنگ میں اپنے کالموں کے موجودہ سلسلے کا آغاز میں نے دو آتش زدگیوں کے موازنے سے کیا تھا کراچی میں بلدیہ کے علاقے میں ملبوسات کی ایک فیکٹری میں ایسی آگ لگی کہ 260 جانوں کا نقصان ہوا۔ چند روز میڈیا نے اس سانحے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی اور پھر دوسری سرخیوں نے اپنی جگہ بنالی۔ ایسی ہی ایک آگ نیویارک میں سو سال پہلے لگی اور اس میں 145زندگیاں بھسم ہوگئیں لیکن پورے شہر میں ایک طوفان بپا ہوگیا۔ قوانین بدل گئے۔ اس واقعے پر فلمیں بنیں۔ کتابیں لکھی گئیں۔ آپ بتائیں، اس موازنے سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ کیا ہم بے حس ہوتے جا رہے ہیں؟ کیا ہم میں چند بنیادی فیصلے کرنے کی ہمت نہیں ہے اور ہم انہیں ٹالنا چاہتے ہیں؟ وہ جو فیصلے کی میز پر بیٹھے ہیں وہ کچھ سوچتے تو ہوں گے۔ اگر ان میں آپس میں اختلاف ہے تب بھی کسی نہ کسی سطح پر ایک سمت کا تعین تو ضروری ہے۔ آپ کہیں گے کہ فیصلے تو روز ہوتے ہیں۔ احکامات صادر کئے جاتے ہیں۔ ایسے بیانات بھی گاہے گاہے جاری کئے جاتے ہیں جن کی بازگشت کئی دنوں تک سنی جائے۔ ان تمام باتوں کے باوجود، جو بنیادی تضاد ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکا ہے اس کا تصفیہ کون کرے گا اور کیسے کرے گا مثالیں کئی ہیں۔ بے نظیر کی شہادت نے پاکستان کو اس طرح نہیں بدلا کہ دہشت گردی کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑی جاتی۔ یہ دہشت گردی کہاں سے آئی ہے اور کون کر رہا ہے اس سے تو ہمارے حکمراں یقیناً واقف ہیں۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد جو فضا قائم ہوئی اس کے سدباب کے لئے کوئی جرأت مندانہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ کئی بار ایسا لگا کہ لوگ خوف کی فضا میں بے بسی کا شکار ہیں اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آتا۔ پشاور کے ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ایک سلسلے کی کڑی ہے۔ ان دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں۔ کراچی کی کہانی سب جانتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم پر آخرکون حکومت کر رہا ہے۔ یا وہ جو حکومت کر رہا ہے وہ کس کے ساتھ ہے۔ ایسے ایسے اندوہناک واقعات ہو چکے ہیں کہ ان کے بارے میں سوچ کر دل دہل جاتا ہے۔ کوئی موڑ ایسا نہیں آتا کہ حکمراں کہیں کہ بس اب یہ نہیں ہوگا۔ فرقہ وارانہ تشدد جس طرح بڑھا ہے اس کے نتائج پورے معاشرے کے لئے ایک خطرہ بن چکے ہیں۔
یہ بات یقینی ہے کہ ہمارے حکمراں اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ملک میں یہ سب کیا ہو رہا ہے البتہ یہ نہیں معلوم کہ ان مسائل کو سمجھنے کی ان کی صلاحیت کتنی ہے۔ اگر ایک طرف روشن خیال، جمہوری اور مکالمے کی بنیاد پر قائم ہونے والے معاشرے کا تصور ہے تو دوسری طرف قدامت پسند، مذہبی انتہا پسندی اپنا زور دکھا رہی ہے۔ اگر بیچ میں کوئی لکیر کھینچی جا سکتی ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرف ہے۔ بالآخر یہ فیصلہ حکمرانوں ہی کو کرنا ہے۔
تازہ ترین