• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح 25دسمبر 1876ء کو کراچی کے علاقے کھارادر میں پیدا ہوئے۔ قائد اعظم کی آخری آرام گاہ بھی کراچی کے مرکز میں ہی واقع ہے، جسے مزارِ قائد کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

25دسمبر کی سرگرمیاں

25دسمبر کو یومِ پیدائش کی مناسبت سے بابائے قوم کے مزار پر سلامی دی جاتی ہے، اعلیٰ عہدوں پر فائز وفاقی اور صوبائی شخصیات خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے مزار پر حاضری دیتی ہیں جبکہ عوام کی بھی ایک بڑی تعداد اپنے قائد کی عظمت کو سلام کرنے ان کی آخری آرام گاہ کا رُخ کرتی ہے، جہاں وہ قائد اعظم کے مزار پر فاتحہ پڑھنے کے علاوہ اس کے ارد گرد بنے سرسبز و شاداب پارک سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ قائد اعظم کی ہمشیرہ، مادرِ ملت فاطمہ جناح بھی مزارِ قائد کے مشرقی احاطے میں دفن ہیں۔ ان کے علاوہ، قائدِ ملت اور پاکستان کے اولین وزیراعظم خان لیاقت علی خان، ان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر اور نورالامین بھی مزارِ قائد کے احاطے میں مدفون ہیں۔

عام دنوں میں روزانہ لگ بھگ 10ہزار افراد بابائے قوم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے اور یہاں بنائے گئے خوبصورت سبزہ زار سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں۔

ایوانِ نوادراتِ قائد اعظم

عوام کی دلچسپی اور ان کے لیے قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں جاننے اور سمجھنے کے لیے مزارِ قائد کے مغرب میں ایک بڑا ہال موجود ہے۔ شمال میں اس ہال کو توسیع دے کر وہاں قائد اعظم کے نوادرات نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اس ہال کو ایوانِ نوادراتِ قائد اعظم کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں قائداعظم کے زیرِ استعمال رہنے والی ذاتی اشیا، قرآن پاک کے نسخے، دو گاڑیاں (کاریں)، پریزنٹیشنز، ملبوسات، جوتے، ڈاک کے ٹکٹ، کرنسی نوٹ، اسٹیشنری، فرنیچر، قالین، چینی کے برتن، چھُری کانٹے اورچمچے، تزئین و آرائش کا سامان، اسلحہ اور دفاعی آلات رکھے گئے ہیں۔

یادگاری کمرے میں قرآن پاک کے 9نسخے رکھے گئے ہیں۔ نسخوں میں جہاں مکہ مکرّمہ اور روس میں طبع ہونے والے نسخے شامل ہیں، وہاں ایک نسخہ کائرو، مصر سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ اس نسخے پر اخوان المسلمین کے بانی رہنما مرحوم حسن البنا کا آٹوگراف موجود ہے۔ قائد اعظم کو یہ نسخہ 1946ء میں اس وقت پیش کیا گیا تھا، جب انھوں نے لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس ہندوستان آنے کے لیے قاہرہ میں اسٹاپ اوور کیا تھا۔

ہارٹی کلچر

باغِ قائداعظم میں38اقسام کے 5ہزار درخت لگائے گئے ہیں۔ مزار کے مغرب میں یہ مقبرے کے قطر میں لگائے گئے ہیں۔ شاہراہِ قائدین والی طرف لوگوں کے بیٹھنے کے لیے 80'x80'کی جگہ چھوڑی گئی ہے، جس کے بعد اسکوائر ڈیزائن میں درخت لگائے گئے ہیں۔ درختوں کے علاوہ کئی اقسام کے خوبصورت پھول اور گھاس بھی لگائی گئی ہے۔ گھاس کو باغ کی حدود میں مختلف مقامات اور سطحوں پر125ٹکڑوں میںلگایا گیا ہے۔ یہ گھاس سطح سمندر سے مختلف سطحوں جیسے 60فٹ، 65فٹ، 70فٹ اور 75فٹ اُونچائی پر لگائی گئی ہے۔ باغ میں پھولوں کی ورائٹیز کا انتخاب اس طرح کیا گیا ہے کہ یہاں سال کے ہر موسم میں چاروں اطراف پھول کھلتے اور مہکتے دیکھے جاسکتے ہیں۔

آڈیو ویژوئل ہال

باغِ قائد اعظم میں ایک آڈیو ویژوئل ہال بھی تعمیر کیا گیا ہے، جس کا رقبہ 5,800مربع فٹ ہے۔ یہاں 169افراد کے بیٹھنے کی گنجائش موجود ہے۔یہاں لوگ مختلف پروگرامز، پبلک سروس پیغامات اور ڈاکیومینٹریز کے ذریعے قائداعظم کی زندگی اور تحریک آزادی میں ان کی جدوجہد سے متعلق جان سکتے ہیں۔

مزارِ قائد کا آرکیٹیکچر

قائد اعظم کے مقبرہ کا آرکیٹیکچر معروف آرکیٹیکٹ یحیٰ مرچنٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ یہاں یہ بتانا ضرور ی ہے کہ بابائے قوم کی آخری آرام گاہ کے لیے چار نقشے تیار کیے گئے تھے ۔ ایک نقشہ ترک آرکیٹیکٹ اے واصفی ایگلی، دوسرا آرکیٹیکٹ نواب زین یار جنگ اور تیسرا برطانوی آرکیٹیکٹ راگلن اسکوائر نے بنایا تھا۔ تاہم یہ تینوں نقشے رد کر دیے گئے تھے ۔ تین نقشے رد کیے جانے کے بعد دسمبر 1959ء میں قائد اعظم کی ہمشیرہ اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی خواہش پر نقشے کی تیاری کا کام آرکیٹیکٹ یحییٰ مرچنٹ کے سپرد کیا گیا۔

یحییٰ مرچنٹ نے مزار کے ڈیزائن کا بنیادی کام 28جنوری1960ء کو مکمل کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے قائد اعظم کے شان و مرتبے اور قیامِ پاکستان میں ان کے لازوال کردار کو مدِنظر رکھتے ہوئے مقبرہ ڈیزائن کیا۔ تعمیرات کا آغاز 8فروری 1960ء کو ہوا۔ 31جولائی 1960ء کو اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے مزار کا سنگ بنیاد رکھا۔ 31مئی 1966ء کو مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل کرلیا گیا۔ 

تازہ ترین