• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم ایک جدید ریاست ، جو تاریخی طور پر کمزور بنیادوں پر استوار ہے، قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا کام نہایت دشوار، بعض اوقات ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ اقوا م ماضی کے تجربات سے رہنمائی حاصل کرتی ہیں لیکن ہمارا ماضی جنگجو اور فاتح بادشاہوں․․․ محمود غزنوی، قطب الدین ایبک، بابر، اکبر اور کچھ بعد میں ابدالی․․․ کی زرہ پوش یادوں کا اسیر ہے۔ ہمارے پاس قانون ساز اور دانشور حکمرانوں کی کوئی مثال نہیں ہے۔ بے شک اکبر نے ایک عالیشان سلطنت کی بنیاد رکھی تھی مگر وہ بھی اپنے اندر بہت سی خامیاں لیے ہوئے تھی کیونکہ وہ سلطنت نہ تو جاں نشینی کا مسئلہ حل کر سکی، نہ، جیسا کہ اُس وقت یورپ میں ہو رہا تھا، کوئی سیاسی اور قانونی ڈھانچہ تشکیل دے سکی اور نہ ہی کوئی قابل ِ ذکر تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا ۔پندرویں اور سولہویں صدی میں یورپ کو تاریک دورسے نکال کر آگاہی کے راستے پر گامزن کرنے والی علم کی نشاة ِ ثانیہ (the Renaissance) کی روشنی انڈیا کے ساحلوں تک نہ پہنچ سکی۔ اس کے بعد یورپی مہم جو اور تاجر انڈیا آنا شروع ہوگئے، تاہم مغلوں کو دوسری دنیاؤں کی طرف جھانکنے کی عادت نہ تھی، اس لیے یہاں علم و ترقی کا دروازہ نہ کھل سکا۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی یلغار کے سامنے مغل سلطنت لاچارگی کے عالم میں دم توڑ گئی۔
پاکستان، جس کو ہم آسمانی طاقتوں کی طرف سے اپنے لیے خصوصی عطیہ سمجھتے ہیں، میں جو جدید سیاست متعارف ہوئی وہ یہاں کی سرزمین سے پھوٹنے والی دانائی اور تجربات کا نچوڑ نہ تھی بلکہ اسے ایک اور قوم نے ایک پرائی سرزمین سے یہاں درآمد کیا تھا، اس لیے ہم اُن تحریری قوانین، جمہوری ضوابط اور فرد ِ واحد کی بجائے افراد کے باہم اشتراک سے بننے والی حکومت کے تصورات کی حقیقی تفہیم سے قاصر رہے۔ اس کج فہمی کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ انتشار کا شکار ہو گیا۔ ہمارے طبقہ اشرافیہ نے یورپی طرز زندگی اپنالی اور انگریزی بولنا شروع کردی، تاہم انگریز یہاں صرف 98 سال تک حکمران رہے اور یہ عرصہ، گرچہ سطحی تبدیلی لا سکا، ثقافتی اور فکری تبدیلی کے لیے کافی نہ تھا۔یہاں مسلمانان برِ صغیر کو ایک اور مسئلہ بھی درپیش تھا․․․ آٹھ سوسالہ دور ِ حکومت میں مسلمان ہندومت کو ختم تو نہ کرسکے لیکن ان آٹھ صدیوں نے ہندو ؤں کے ذہن سے مسلمان حکمرانوں سے پہلے کی یادوں کو محو کر دیا۔ چنانچہ اُنہوں نے (کرکٹ کی اصطلاح میں ) ایک نئی اننگز کی ابتدا کر دی اور کتاب ِ زیست کا ایک نیا صفحہ پلٹنے میں کامیاب ہوگئے۔ چنانچہ جب مسلمان ”حاضر و موجود“ کے پیچ و خم میں غلطاں یا ماضی کے التباسات سے سند یافتہ احساس ِ برتری کے نشے سے سرشار تھے، غیر مسلموں، جن کو یہ ”سہولیات “ میسر نہ تھیں، نے فوراً ہی مغربی اطوارکو اپنا لیا۔ اس پس ِ منظر میں سرسید احمد خاں کی جدید تعلیم کے لیے کاوشیں مسلمانوں کے حق میں دودھاری تلوار ثابت ہوئیں۔ اگرچہ علی گڑھ نے جدید تعلیم دینے کی روایت قائم کی لیکن اس نے مسلمانوں کو فرماں برداری کا درس بھی دیا۔ اس نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ انگریزوں کی مخالفت کرنا اُن کے مفاد میں نہیں ہے۔ بہرحال 1857ء کی شورش کے بعد ، جب کہ مسلمان زیر عتاب تھے، یہ ایک اچھی حکمت ِ عملی تھی کیونکہ انگریز مسلمانوں کو بغاوت ِ ہند کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ یہ مفاہمت وقتی فائدے کے لیے تو ٹھیک تھی مگر اس کے دور رس نتائج تباہ کن نکلے۔ جب کانگریس کے رہنما بہت پہلے آزادی ِ ہند اور جمہوریت کی بات کررہے تھے، مسلمان اکابرین غیر ملکی حکمرانوں سے وفاداری نبھانے کی سعی میں تھے۔ چنانچہ یہ بات تعجب خیز نہیں کہ اُس وقت مسلم لیگ کی بجائے انڈین نیشنل کانگریس زیادہ ترقی پسند جماعت تھی۔ چنانچہ جب کانگریس نے انگریز کے خلاف جدوجہد شروع کی تو مسلم لیگ نے کانگریس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ اس تاریخ ، جس کے مستقبل پر دور رس نتائج مرتب ہوئے، کو فراموش کرنا غلطی ہو گی۔
اس پس ِ منظر میں انڈیا کا آغاز بہتر ہوا اور اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ایک بڑا ملک تھا بلکہ اس کی وجہ آزادی سے پہلے کے رہنما․․․ صرف پنڈت نہرو ہی نہیں بلکہ بہت سے دیگر بھی․․․ تھے جنہوں نے انگریز راج کے دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور آزادی کے لیے جدوجہد کا سبق سیکھا۔ اس دوران مسلم لیگ کا طریق ِ کار مختلف تھا۔ اس کے پاس مسٹر جناح ہی بلند قامت رہنما تھے۔ مسلم لیگ کی دیگر قیادت ان کے پائے کی نہ تھی․․․ آج کے پاکستان کے مسخرہ نما سیاست دانوں سے وہ بھی بدرجہا بہتر تھے مگر اُس وقت کی مسلم لیگی قیادت پٹیل، علامہ آزاد اور دیگر رہنماؤں کے مقابلے کی نہ تھی۔ اب ستم یہ ہوا کہ ایک تو آغاز اچھا نہ تھا اور پھر ہم مذہبی قوتوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ ہمیں قیام ِ پاکستان کے فوراً بعد ہی آئین سازی(جیسا کہ بھارت نے کی) کرنی چاہیے تھی، اس کی بجائے ہم فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہوئے ”قرار داد ِ مقاصد “ کی بے مقصدیت میں کھو گئے۔ اس کے بعد غالباً پاکستان کے مقدر میں لکھ دیا گیا کہ وہ ”مقاصد “ طے کرتا رہے مگر اُنہیں حاصل کرنے کے لیے کوئی عملی قدم نہ اٹھاسکے۔
پاکستان کا دانشور طبقہ ایک سیدھی سادی بات کی تفہیم سے قاصر رہا کہ بھارت بھی پاکستان کی طرح ( یا شاید ا س سے بھی زیادہ ) ایک مذہبی ملک ہے۔وہاں رام دیو، ستیا، بابالوگ، جوگی، درویش اوربہت سے مذہبی کردار ہیں اور آج بھی میچوں میں توہم پرستی کا مظاہر ہ دیکھنے میں آتا ہے․․․ چنانچہ وہ ہم سے اوہام کے میدان میں کم تر نہیں ہیں۔ تاہم انڈیا کے بانیوں نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذہب کو ریاست کے معاملات سے الگ رکھا جبکہ ہم نے سیکولرازم کو جہنم میں جانے کا مختصرترین اور یقینی راستہ گردانا۔ تمام انسانوں کو آزادی ہے کہ وہ اپنی روحانی نجات کے لیے جو راہ چاہے اپنائے․․․ چاہے وہ مسجد میں جائے ، مندر میں جائے یاچرچ میں۔اس معاملے میں ہر کوئی آزاد ہے اور اس پر کوئی جبر نہیں ہے۔ ہزاروں سالوں کی تاریخ ہمیں سبق دیتی ہے کہ مذہب کو ذاتی معاملہ سمجھ کر سیاست کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کرنا چاہیے۔ افسوس ، ہم نے یہ سبق نہ سیکھا ، چنانچہ آج پاکستان کا چہرہ مسخ ہو چکا ہے۔ اگر ملالہ پر حملہ ہی کافی نہ تھا، اب پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر بھی حملے شروع ہوگئے ہیں۔نہ جانے انتہا پسندی کے عفریت نے ابھی ہمارا کتنا خون پینا ہے؟
آج صورت ِ حال گمبھیر ہے لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے یا یہ اپنا جغرافیائی وجود کھونے والی ہے۔ ایسا نہیں ہے․․․ بات صرف اتنی ہے ہم نسل در نسل اپنی سوچ اور عمل میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ ہم ساحل پر رہ کر موتی نکالنے کی آرزو کرتے ہوئے ناکامی نہیں بلکہ غیر حقیقی رویوں کا شکار ہوئے ہیں۔ ہم نے خوابوں سے شیش محل تعمیر کرنا سیکھ لیے ہیں۔ آج جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ، ہم فطرت کے قوانین کو اپنانے میں ناکام توہمات کی دنیا سجائے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں کچھ چیزیں ممنوع ہیں، جیسا کہ مہ نوشی، تاہم ان پر پابندی ہٹائی جانی چاہیے۔ اجازت دینے سے ایسا نہیں کہ لوگ گلیوں بازاروں میں پی کر اودھم مچاتے پھریں․․․ گو کہ خدشہ ہے کہ شروع میں ایسا ہی ہو گا․․․ بلکہ اس کے لیے کہ پابندی نہ موثر ہے نہ مستعمل۔ اس سے صرف منافقت کو ہی ہوا مل رہی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے اس موضوع پر بات نہیں کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ لب کشائی کی جسارت کریں گے تو مذہب کے ٹھیکیدار آپ پر چڑھ دوڑیں گے اور ہو سکتا ہے کہ آپ کو کافر بھی قرار دے دیا جائے․․․ اس میں کون سی دیر لگتی ہے۔ اب حال یہ ہے کہ ہم جدیدعہد میں ایک قدم رکھنا چاہتے ہیں جبکہ ہمارا دوسرا قدم ابھی تک قرون ِ وسطیٰ میں ہے۔ چونکہ جمہوریت ہمارے خون میں شامل نہیں ہے اس لیے ہم اُس صبر سے بھی تہی دامن ہیں جو اس کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اب ذرا موجودہ ماحول پر نظر ڈالیں․․․ انتخابات سر پر ہیں اور معجزانہ تبدیلی کے طالب نعرہ زن ہیں کہ ملکوتی قوتیں آکر سارا گند صاف کردیں ۔ ہم کچھ چیزیں سیکھنے کے لیے بنے ہی نہیں ہیں․․․ ان میں سے ایک صبر ہے اور دوسری معقولیت۔ تاریخ ہمارے لیے سنگ ِ راہ سے زیادہ اہم نہیں ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ انتخابات سے فرشتوں یا پاک دامن لوگوں کی حکومت قائم نہیں ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہی ، یااسی طرح کے، افراد دوبارہ اسمبلی میں آجائیں لیکن اقوام کو جمہوری رویے سیکھنے اور جمہوری اداروں کو استحکام بخشنے میں وقت لگتا ہے۔ اگرچہ انتخابات کوئی مثالی حکومت کی ضمانت نہیں ہیں، بلکہ ان کی شفافیت بھی مشکوک ہوتی ہے، پھربھی ان کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ ہم نے اور بھی تجربات کیے ہیں اور ان کے نتیجے میں آج ہم کس حال سے دوچار ہیں۔ اب معاملہ اس نہج پر ہے کہ اگر ان انتخابات کو سبوتاژ کیا گیا تو ہم ایک مرتبہ پھر ماضی میں ہوں گے اور طے کی گئی منزل کی طرف از سر ِ نو جادہ پیمائی کرنا پڑے گی۔بہت سے لوگ معیشت کی بدحالی کا بھی رونا رو رہے ہیں․․․ اور ان کے آنسو بھی بجا ہیں․․․ اُن کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جمہوری نظام ہی معیشت کی راہیں متعین کرتا ہے۔ جب تک ہماری سیاست میں اہل اور ماہر لوگ نہیںآ ئیں گے، ہم درست معاشی فیصلے بھی نہیں کر سکیں گے۔ اس کام کے لیے آسمان سے فرشتوں کا نزول نہیں ہو گا۔
اب یہ نعرہ․․․”سیاست نہیں ، ریاست بچاؤ“ ․․․ مقبول ہو چلا ہے اور اس کی تشہیر کرنے والے داد کے مستحق ہیں، تاہم ایک سوال ہے کہ شیخ الاسلام صاحب کے پاس اس پیمانے پرتشہیر بازی کے لیے رقم کہاں سے آئی؟اور پھر ان کے پیش ِ نظر مقاصد کیا ہیں؟کیا اس معرکے میں وہ تن ِ تنہا ہیں یا ان کی پشت پر کوئی اور بھی ہے؟ ان سوالوں کے جواب آنے والا وقت دے گا۔ فی الحال گفتار کے غازی مایوسی پھیلانے کا دائمی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ شور مچانے میں کوئی حرج نہیں․․․ کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں، تاہم خیال رہے کہ اس نازک موڑ پر ہم کسی مہم جوئی کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ سیاست کوئی جادوئی طاقت نہیں رکھتی لیکن ہمارے پاس کوئی معجزاتی قوت ہے بھی تو نہیں۔ چنانچہ صبر سے آگے بڑھتے رہیں۔
تازہ ترین