• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سماج کے استحکام و ارتقا کیلئے احتساب جتنا ضروری ہے اس سے بھی زیادہ اہم اس عمل کی شفافیت ہے ورنہ مطلوبہ نتائج کا حصول تو کجا الٹا انتشار کی راہ ہموار ہونے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ احتساب کے عمل میں کوئی بھی سقم اس سارے عمل پر ہی سوالیہ نشان لگانے کا باعث بن جاتا ہے۔ اسی تناظر میں عدالت عظمیٰ کے حالیہ ریمارکس کو دیکھا جائے تو بات کو سمجھنے میں آسانی رہے گی کہ ’’پلی بارگین، دراصل جرم کا اعتراف ہے۔‘‘ عدالت عظمیٰ نے جمعرات کے روز نیب کے مقدمات میں ملوث ملزمان کی جانب سے قومی خزانے سے لوٹی گئی رقوم کی رضاکارانہ واپسی سے متعلق نیب آرڈیننس 1999کی دفعہ ’’اے‘‘ کے سکوپ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کو اس دفعہ میں ترمیم کرنے کیلئے فروری کے پہلے ہفتے تک کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اگر آئندہ سماعت تک ترمیم نہ کی گئی تو پھر عدالت اس حوالے سے خود فیصلہ جاری کرے گی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو اس قسم کے قوانین کالعدم قرار دینے کا مکمل اختیار ہے، رقوم کی رضاکارانہ واپسی ملزم کی جانب سے اپنے جرم کا اقرار کرنے کے مترادف ہے، کسی انتظامی حکم یا رضاکارانہ رقم کی واپسی سے جرم ختم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی عدالتی حکم کے بغیر جرم ختم ہو سکتا ہے۔ وطن عزیز میں احتساب کی تاریخ کبھی مثالی نہیں رہی۔ میاں محمد نواز شریف کے دور حکومت میں احتساب کے لئے باقاعدہ ایک محکمہ تشکیل دیا گیا لیکن اس پر اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے متعدد الزامات عائد کئے گئے ان کی جگہ دوسرے آئے تو ان کا طرزعمل بھی مختلف نہ رہا چنانچہ اس عمل سے بہتری کے بجائے بگاڑ پیدا ہوا۔ نوے کی دہائی کی سیاست اگر ہماری سیاسی تاریخ میں متنازع قرار دی جاتی رہی ہے تو اس میں ان انتقامی رویوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ قومی احتساب بیورو جنرل پرویز مشرف نے زمام حکومت ہاتھ میں لینے کے بعد 16اکتوبر 1999کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قائم کیا اور اس کا مقصد بھی وہی رہا یعنی سیاسی مخالفین کی گو شمالی۔ لندن میں ملک کی دو بڑی اور دیگر متعدد سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تو یہ بھی طے پایا کہ احتساب کا عمل تو جاری رہے گا تاہم اس کے لئے شفاف ترین نظام وضع کیا جائے گا۔ سردست صورتحال یہ ہے کہ قومی احتساب بیورو پر نہ صرف اپوزیشن اور دیگر کئی سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ بھی قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے بعض اقدامات پر خفگی کا اظہار کر چکی ہے۔ عجیب گومگو کی کیفیت دکھائی دے رہی ہے۔ نیب کے مقدمات اور اقدامات کو دیکھتے ہوئے متعدد تجزیہ کاروں کا یہاں تک کہنا ہے کہ نیب کا مقصد ملک کی لٹی ہوئی دولت واپس لینا ہے یا انتقامی کارروائیاں کرنا؟ مقاصد عیاں ہونے چاہئیں تاکہ جانبداری کا الزام نہ لگے ۔ جہاں تک پلی بارگین کا تعلق ہے اس پر عدالت عظمیٰ کے ریمارکس بالکل بجا ہیں، اگر کوئی قومی خزانہ لوٹتا ہے تو لٹی ہوئی رقم میں سے کچھ واپس کر کے صاف ستھرا کیسے ہو سکتا ہے؟ بلاشبہ یہ امر اقرار جرم ہے اور اس سے بریت بذریعہ عدلیہ ہی ممکن ہے۔ دنیا میں جتنے بھی جمہوری اور ترقی یافتہ ممالک ہیں ان میں احتساب کا ایسا جامع و شفاف نظام رائج ہے کہ احتساب کی زد سے نہ کوئی ماورا ہے اور نہ ہی کوئی اس پر معترض، اس لئے کہ ایسے قوانین میں ترامیم کر کے انہیں مضبوط تر کرنے کا عمل جاری رہتا ہے ۔ یہ ایک احسن امر ہے کہ عدلیہ نے اختیار ہونے کے باوجود پارلیمان کو نیب قانون میں تبدیلی کا کہا ہے ۔ پارلیمان ملک کا معتبر ترین ادارہ ہے اسے عدلیہ کی دی گئی مہلت سے قبل ہی اس حوالے سے اقدامات کرتے ہوئے پہلے مذکورہ قانون کے حوالے سے ترمیم کرنا چاہئے اور اس کے بعد احتساب کیلئے ایسا جامع اور شفاف نظام تمام پارلیمانی جماعتوں کی مشاورت سے وضع کرنا چاہئے جس سے نہ انتقام کا کام لیا جا سکے نہ ہی کسی کو کوئی رعایت مل سکے۔ ایسا نظام پاکستان کیلئے ناگزیر ہے ورنہ حکومتیں تو بدلتی رہتی ہیں اور اگر نظام وہی فرسودہ رہا تو ہر حکومت کے پاس یہ نظام مخالفین کیلئے بطور ہتھیار موجود رہے گا۔

تازہ ترین