• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جبری کام جو بچوں کو تعلیم کے حصول سے روکے، ذہنی، جسمانی، سماجی اور اخلاقی طور پر ان کے کردار میں گراوٹ کا باعث بنے ،جبری مشقت کے زمرے میں آتا ہے اورانسانیت کی ذیل میں آنے والا کوئی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ عالمی ادارئہ محنت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت تین لاکھ سے زائد بچے جن کی عمر15سال سے کم ہے، لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے جمعرات کے روز گھریلو ملازمین کے بارے میں قانون سازی نہ ہونے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران حکومت پنجاب کو اس حوالے سے قانون بنانے کا حکم دیتے ہوئے 15 سال سے کم عمر کے بچوں کی گھریلو ملازمت پر پابندی عائد کردی ہے جو ایک احسن اقدام ہے، اس سے ان واقعات کا خاتمہ ہو سکے گاجو گھروں میں کام کرنے والے بچوں پر تشدد کی شکل میں منظر عام پر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت عالیہ نے جملہ گھریلو ملازمین کی تنخواہیں طے کرنے اور اس کی ڈیوٹی کی حد آٹھ گھنٹے مقرر کرنے کی بھی ہدایت کی۔ عدالت عالیہ کے اس فیصلے سے قوم کے ان بچوں میں آزادانہ ماحول میں دوسرے بچوں کے شانہ بشانہ آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا ہوگا، جس کی تقلید ملک کے دوسرے حصوں میں بھی کی جانی چاہیے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ آج کے تہذیب یافتہ دور میں دنیا کے بیشتر ملکوں میں بچوں سے جبری مشقت کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے تاہم اعداد و شمار کے مطابق اس وقت لاطینی امریکہ کے بعد جنوبی ایشیا کا خطہ سرفہرست ہے جہاں بچوں سے گھریلو مشقت لی جاتی ہے ۔وطن عزیز میں گزشتہ برسوں کے دوران پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ امید ِواثق ہے کہ ڈومیسٹک ورکرز بل 2018 ءکی منظوری کے بعد اس کے نفاذ سے 15 سال سے کم عمر کے گھریلو ملازمین کواس مشقت سے آزادی مل سکے گی۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین