• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹھیک تیس برس قبل یہی دسمبر کے آخری دن تھے۔ لاہور ایک گلزار شہر ہے۔ نور الدین سلیم جہانگیر کی چشم فسوں ساز کی پتلی نور جہاں نے بے سبب نہیں کہا تھا، لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم۔ لاہور میں ہر دوسرے کوس پر کسی خاموش کوچے میں ایک تمثال دار ٹکڑا ایسا ملتا ہے جس کی ایک ایک اینٹ پر تاریخ لکھی ہے۔ صفانوالہ چوک سے سینٹ انتھونی کے گرجے تک کوئی فرلانگ بھر کا ایسا ہی ایک مرقع ٹکڑا ہے۔ تین منٹ کی اس پیدل مسافت میں تاریخ کے ان گنت اوراق سے ملاقات ہوتی ہے۔ گنتے جائیے۔ بیرسٹر غلام رسول خان، ملک برکت علی، مولانا صلاح الدین احمد، ملک غلام نبی، سی آر اسلم، ڈاکٹر مبشر حسن، عزیز صدیقی، آئی اے رحمان… اس فہرست کو نامکمل چھوڑتے ہوئے دسمبر 1988ء کی اس شام کی طرف پلٹتے ہیں۔ جمیل عمر مرحوم نے مکتبہ فکر و دانش سے ماہنامہ ’نیا پاکستان‘ جاری کیا تھا۔ درویش بے نشاں ان کا بے مول بستہ بردار تھا۔ اس شام آئی اے رحمان سے انٹرویو کا قصد تھا۔ ٹمپل روڈ کے اس اساطیری حصے پر قدم مارتے اس چوکور احاطے تک پہنچے جو روایت کے مطابق تقسیم سے قبل کسی غیر مسلم ڈاکٹر کے گھر کا صحن تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی کٹی پھٹی حکومت کے ابتدائی ایام تھے۔ اس ملاقات میں ایک جملہ استاذی آئی اے رحمان کا ذہن پر مرتسم ہو گیا۔ جنہیں رحمان صاحب کو سننے کا اتفاق ہوا ہو، وہ جانتے ہیں کہ استاد محترم کی فصیح اردو میں انگریزی زبان کی دو ٹوک بلاغت کا رنگ پایا جاتا ہے۔ فرمایا، ’آج کل کے حالات میں جو پرامید نہیں، اس کی نیت میں کھوٹ ہے‘۔ استاد نے ٹھیک کہا تھا۔ قوم آمریت کے ایک عشرے کی تاریکی سے باہر نکلی تھی۔ ہاتھ پاؤں بندھے تھے مگر امید کا موسم تھا۔ تین دہائی بعد دسمبر کے وہی دن ہیں مگر آج کی دھند آلود لوح پر لکھا ہے ’آج کل کے حالات میں جو امید کی حکایت سناتا ہے، اس کی نیت میں کھوٹ ہے‘۔

ہر ایک رہ گزر گردش اسیراں ہے

نہ سنگ میل، نہ منزل، نہ مخلصی کی سبیل

کرسمس میں چند روز باقی ہیں۔ اس سے پہلے مگر اک رسم ملاقات بھی ہے۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں پارلیمنٹ، عدالت اور سڑکوں پر جو مناظر نظر آئیں گے انہیں اگلے برس کا پیش لفظ سمجھنا چاہئے۔ 24دسمبر کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نیب کے دو ریفرنس فیصل ہو جائیں گے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے بارے میں جے آئی ٹی رپورٹ پر مزید پیش رفت واضح ہو جائے گی۔ ستائیس دسمبر کو گڑھی خدا بخش بھٹو میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کی تقریب ہے اور تیس دسمبر کو مسلم لیگ نے یوم تاسیس کا اعلان کر رکھا ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سمیت مقننہ کی قائمہ کمیٹیوں کے معاملات سلجھا لیے گئے لیکن اس بے معنی مناقشے میں چار مہینے ضائع ہوئے۔ ان واقعاتی نشانات سے قطع نظر بنیادی قضیہ یہ ہے کہ ایک طرف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایسی حزب اختلاف ہے جسے احتساب کے نام پر کافکا کے ناول ٹرائل کے اس بے چہرہ کردار کا سامنا ہے جو قیدی کے ہر سوال پر جواب دیتا ہے ’میں تو تمہیں کوڑے لگانے آیا ہوں اور میں تمہیں کوڑے لگاؤں گا‘۔ عبداللہ حسین کے ناول باگھ کا مرکزی کردار تفتیش کرنے والے اہلکار کی طول کلامی کے جواب میں ایک مختصر جملہ کہتا ہے ’مگر میں تو صرف انصاف مانگتا ہوں‘۔ انصاف کچھ ایسا ناممکن ہدف نہیں۔ آئین کی شق دس (الف) میں منصفانہ سماعت کی ضمانت دی گئی ہے۔ دوسری طرف عمران حکومت کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہو پا رہا کہ یہ منتخب جمہوری حکومت ہے یا اہل سیاست کی مخالفت پر کمربستہ گروہ۔ کیا ہم جنرل فرانکو کے اسپین میں بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم سے لے کر کابینہ کے عام ارکان تک ایک ہی ورد سنائی دیتا ہے۔ کرپشن کا احتساب۔ جاننا چاہیے کہ کرپشن کا یہ نعرہ معیشت کے بحران کی گرہ کشائی نہیں کرتا۔

وزیراعظم ایک یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چور سے پیسہ نکلوائیں گے اور تعلیم پہ خرچ کریں گے۔ ایک تو یہ کہ ’چور سے پیسہ نکلوانا‘ عراق سے تریاق لانا ہے۔ دوسرے یہ کہ وزیراعظم کا تصورِ تعلیم غبار آلود ہے۔ تعلیم بچوں کیلئے جوتوں کی خریداری نہیں کہ کسی دکان سے ہاتھ کے ہاتھ اٹھا لائیں۔ تعلیم، معیشت اور حکومت کے درمیان پل باندھتی ہے۔ تعلیم، معیشت اور طرز حکومت کو الگ الگ خانوں میں بند کرنے سے معاہدہ عمرانی میں خلل آتا ہے۔ تعلیم اپنا منصب پورا کرنے سے قاصر رہتی ہے، تعلیمی اداروں سے ممکنہ خام مال کی رسد ختم ہونے سے معیشت پیداوار کے مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتی، اور اگر معیشت کے دھان سوکھے ہوں تو حکومت کے پاس وہ وسائل ہی میسر نہیں آ سکتے جن سے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکیں۔

ملکی معیشت میز پہ رکھا ایک کیک ہے جس کے ٹکڑے مختلف شعبوں، محکموں، اداروں اور گروہوں میں تقسیم ہونا ہیں۔ معاشرے کے یہ مختلف طبقات الگ الگ جزیروں پہ نہیں رہتے۔ ان میں سے ہر ایک کا مفاد دوسرے گروہ سے جڑا ہوا ہے۔ ہر معاشی بندوبست میں کچھ گروہ، طبقات اور ادارے مراعات یافتہ حیثیت میں ہوتے ہیں اور کچھ وسائل کی تقسیم میں خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ بھرے ہوئے پیٹ والا اپنی مراعات یافتہ حیثیت قائم رکھنا چاہتا ہے اور خالی ہاتھ اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ گویا معاشی میزان مسلسل تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ کیک کے اجزا میں مناسب رد و بدل کیا جائے جس سے کیک کا حجم بڑھایا جا سکے۔ معاشی ترجیحات بدلنے سے نئے معاشی مفادات پیدا ہوتے ہیں۔ پیوستہ معاشی مفاد ابھرتے ہوئے معاشی مفاد سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ اس خوف ہی کو اقبال نے رسمِ کہن پر اصرار سے تعبیر کیا ہے۔ ہم نے اپنے ملک میں آنکھیں کھول کر یہ دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ دراصل مراعات یافتہ طبقہ کون ہے؟ وسائل کہاں خرچ ہو رہے ہیں؟ معیشت اور اقدار میں کیا تعلق ہے؟ معاشی ترجیحات کو کس طرح سے از سر نو مرتب کیا جائے کہ ہمارے کیک کا حجم بڑھ سکے۔ گزشتہ چند برس میں بنگلہ دیش کی برآمدات گیارہ ارب ڈالر سے پینتیس ارب ڈالر کو پہنچ گئیں۔ ہمسایہ ملک بھارت کے جی ڈی پی کا حجم چھبیس سو ارب ڈالر کی حد پار کر گیا۔ دنیا چوتھے صنعتی انقلاب کی دہلیز پر ہے لیکن ہمارے اعصاب پر ففتھ جنریشن وار کا بھوت سوار ہے۔ اس دشت کی سیاحی میں ہماری پانچویں پشت ِ زبوں خوار ہو رہی ہے۔ احتساب کی امتناعی نفسیات سے معاشی ترقی کا راستہ نہیں نکلے گا۔ تعلیم کی حرکیات سے آنکھیں بند کی جائیں گی تو علم کی آب جو خشک ہو جائے گی۔ جمہوریت کے نامیاتی ارتقا کو کٹھ پتلی تماشا نہیں بنایا جا سکتا۔ معیشت جیب تراشی کا ہنر نہیں اور علم بازار کی جنس نہیں کہ اینٹ پتھر کی عمارتوں میں اس کا بھاؤ کھلے۔ گزرنے والا برس ہمارے اجتماعی زیاں میں ایک اور قابل فراموش ہندسہ درج کر کے رخصت ہو رہا ہے۔

اے ساکنان کنجِ قفس! صبح کو صبا

سنتی ہی جائے گی سوئے گلزار، کچھ کہو!

تازہ ترین