• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حرف مطبوعہ برسہا برس سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، دنیا بھر میں اسے زندہ رکھنے کی تگ و تاز کی جا رہی ہے اور کیوں نہ کی جائے؟ کسی جانور کی نسل ناپید ہونے لگتی ہے تو محکمہ تحفظ جنگلی حیات حرکت میں آتا ہے، پودوں کی کوئی قسم ختم ہو رہی ہو تو تحفظ نباتات والوں کو فکر لاحق ہوجاتی ہے مگر ہمارے ہاں اخبارات کی سانس اکھڑنے پر تشویش تو کیا گویا جشن طرب برپا ہے،بغلیں بجائی جا رہی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا کیا اب تو الیکٹرونک میڈیا بھی بحران کی زد میں ہے۔ تاثر دیا جا رہا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے میڈیا کو فراخدلی سے اشتہارات دیکر ملک و قوم کا پیسہ ضائع کیا اور اب یہ سلسلہ ترک کر دیا گیا ہے تو بحران کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ چھوٹے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے بارے میں تو یہ بات جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے لیکن بڑے میڈیا گروپوں کا انحصار محض حکومتی اشتہارات پر نہیں تھا۔ پرنٹ میڈیا توکم و بیش دو عشروں سے مشکلات کا شکار ہے مگر سوشل میڈیا کی مقبولیت نے الیکٹرونک میڈیا کو بھی دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے لیکن بڑے میڈیا گروپ نجی اور سرکاری اشتہارات سے حاصل ہونے والے ریونیو کے باعث کامیابی سے چل رہے تھے۔ حالیہ بحران کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ نہ صرف سرکاری اشتہارات کی دانستہ بندش سے میڈیا کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے بلکہ ملک میں جاری اقتصادی کساد بازاری اور معاشی جمود کے باعث کاروباری سرگرمیاں مفقود ہو گئیں اور یوں نجی شعبے سے حاصل ہونے والے اشتہارات بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔

سوال یہ ہے کہ کیا محض پاکستان ہی میڈیا بحران کی زَد میں ہے یا پھر دنیا بھر میں کم بیش ایسی ہی صورتحال درپیش ہے؟ امریکہ میں 2004ء سے اب تک کم از کم 1800اخبارات بند ہو چکے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی 171کائونٹیز میں کوئی مقامی اخبار شائع نہیں ہوتا جبکہ 1449کائونٹیز میں صرف ایک ہفتہ وار مقامی اخبار شائع ہوتا ہے۔ 1994ء میں امریکی اخبارات کی مجموعی سرکولیشن 60ملین تھی جو اب محض 35ملین رہ گئی ہے۔ اشتہارات سے حاصل ہونے والے ریونیو کی بات کی جائے تو 2000ء میں پرنٹ میڈیا کو 65ملین ڈالر کے اشتہارات ملتے تھے مگر اب ان اشتہارات کا حجم سکڑ کر بمشکل 35ملین ڈالر رہ گیا ہے۔ 2015ء کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اشتہاری صنعت میں سے صرف 16فیصد حصہ اخبارات کو مل پاتا ہے، 39فیصد اشتہارات ٹی وی چینلز سمیٹنے میں کامیاب رہتے ہیں جبکہ باقی 45فیصد اشتہارات اب انٹرنیٹ یعنی آن لائن ویب سائٹس کے حصے میں آتے ہیں۔ اشتہاری صنعت سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا خیال ہے کہ اس تناسب میں مزید تبدیلی آئے گی اور اخبارات کا حصہ مزید کم ہوگا کیونکہ اگر وقت کا تناسب دیکھا جائے تو لوگ صرف 4فیصد وقت اخبارات کو دیتے ہیں جبکہ پرنٹ میڈیا کو اشتہارات میں سے 16فیصد حصہ مل رہا ہے۔

صحافی بڑی تعداد میں بے روزگار ہو رہے ہیں۔ امریکہ کا ایک مقبول ترین اخبار جس کے ادارتی شعبہ میں چند برس قبل 20افراد کام کیا کرتے تھے اب وہاں صرف 2صحافی کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کم وبیش ایسی ہی صورتحال کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ممالک میں دکھائی دیتی ہے۔مثال کے طور پر کینیڈا میں دوبڑی کمپنیاں ہیں جو میڈیا کے کاروبار میں سرفہرست ہیں۔ ’’پوسٹ میڈیا‘‘ گروپ جس کے پاس 70سے زائد اخبارات و جرائد کی ملکیت ہے جبکہ ’’ٹور اسٹار‘‘ (Torstar) کینیڈا کے سب سے بڑے اخبار ٹورنٹو اسٹار سمیت دیگر بیسیوں اخبارات و جرائد شائع کرتا ہے۔ پوسٹ میڈیا کمپنی ماضی میں دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ 2010ء سے اب تک 27بڑے اخبارات بند ہو چکے ہیں، 30فیصد صحافی کارکنوں کو ملازمتوں سے نکالا جا چکا ہے۔ نیشنل میڈیا کا ریونیو 2.9ار ب ڈالر سے کم ہو کر 1.75ارب ڈالر تک محدود ہو چکا ہے۔ کلاسیفائیڈ اشتہارات کی مارکیٹ جو ایک ارب ڈالر سالانہ پر مبنی تھی اس میں سے صرف 25فیصد حصہ ہی اخبارات کے پاس رہ گیا ہے۔

لیکن محولہ بالا کسی ملک میں اداروں کی تالا بندی اور احتجاج کے نام پر سیاست چمکانے کی کوشش نہیں کی جاتی کیونکہ یہ بحران اس سے کہیں زیادہ سنجیدگی اور متانت کا متقاضی ہے۔ اس بحران کا ایک حل تو یہ ہے کہ نیشنل میڈیا کی نئی جہت متعین کی جائے، نئے راستے دریافت کئےجائیں۔ مثال کے طور پر امریکی اخبارات نے اپنے آن لائن ایڈیشن اور ویب پورٹلز کو بہتر بنایا اور اب ایک امریکی اخبار کے آن لائن سبسکرائبرز کی تعداد 1.3ملین ہو چکی ہے۔ دوسرا حل یہ ہے حکومتیں جس طرح لوگوں کے معاشی مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے دیوالیہ ہونے کے خطرات سے دوچار نجی اداروں کو بیل آئوٹ پیکیج دیتی ہیں اسی طرح میڈیا کو سہارا دیا جائے۔ کینیڈا میں جب میڈیا کی دونوں بڑی کمپنیاں معاشی بحران کی زد میں آئیں تو جسٹن ٹروڈو نے 50ملین ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج دیا۔ برطانیہ میں وزیراعظم تھریسا مے کئی بار کہہ چکی ہیں کہ میڈیا جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے اگر یہ منہدم ہوا تو جمہوریت کے استحکام اور بقا کو شدید خطرات لاحق ہونگے۔اس کے برعکس پاکستان میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ گویا حکومت کی جانب سے اشتہارات دینا فضول خرچی اور قومی خزانے کا ضیاع ہے۔ہمارے ہاں سوشل میڈیا کی سرشاری کا دور ہے اس لئے جب قومی میڈیا کو درپیش بحران کی بات آتی ہے تو تجاہل عارفانہ سے کہہ دیا جاتا ہے کہ میڈیا ختم ہوتا ہے تو ہو جائے ہمیں کیا۔گزارش یہ ہے کہ جب حقائق اور ریکارڈ کی درستی کے لئےقومی میڈیا نہیں ہوگا تو پھر سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کا بازار خوب گرم ہوگا اور بندرکے ہاتھ ماچس آنے پر شہر جلا کر خاکستر کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔ذرا تصور کریں،آپ صبح اٹھیں اور گھر میں آئینہ میسر نہ آئے تو کیا ہو؟آپ اپنے خال و خد اور نک سُک نہ سنوار پائیں،یہ معلوم نہ ہو سکے کہ چہرہ کیسا ہے تو کیا کیفیت ہوگی ؟تکلف برطرف،یہ قومی میڈیا بھی ہمارے ملک اور معاشرے کا آئینہ ہے،اسے توڑنے سے کچھ نہیں ہوگا،اپنے چہرے پر پڑی دھول اور گرد و غبار سے نجات حاصل کریں تو اس آئینے میں دکھائی دینے والی تصویر خود بخودمثبت اور روشن ہو جائیگی۔

تازہ ترین