• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک ایس ایم ایس موصول ہوا، ”میں اب دبئی کے لئے روانہ ہو رہا ہوں ۔ آپ کا کالم وہاں پہنچ کر پڑھوں گا۔ امید ہے، آپ اور آپ کی فیملی بخیر ہوں گے۔“ اور کوئی آدھ گھنٹے بعد دوسرا ایس ایم ایس، ” میں دبئی کے لئے محو ِ پرواز ہوں ۔ موبائل سگنل آن ہیں اور فون کام کر رہا ہے ۔ کیا ہماری پی آئی اے ایسی نہیں ہو سکتی ؟ ہاں ہو سکتی ہے ، صرف اپنے نصب العین سے وابستگی ، آئین اور ریاست سے وفاداری درکار ہے ۔ پی آئی اے بہت پہلے ایسی ہو سکتی تھی لیکن ” گھس بیٹھیے “ اور ”ناجائز قابضین“ اس میں حائل ہو گئے ۔ اچھی ائیر لائن کا مطلب ہے اچھا ملک “۔
پہلے ایس ایم ایس کو رسمی سمجھ لیجئے لیکن دوسرا ایس ایم ایس خیال کی وقتی لہر نہیں ۔یہ ایک مائنڈ سیٹ کا اظہار ہے۔ قاسم پیرزادہ نے کہا تھا:
میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں،خواب دیکھتا بھی نہیں
اس میں کیا شک ہے کہ زندہ لوگ سوچتے بھی ہیں اور خواب بھی دیکھتے ہیں ۔ ہم جیسے لوگ تو محض دھرتی کا بوجھ ہوتے ہیں لیکن سوچنے اور خواب دیکھنے والے لوگوں میں ، خصوصاً اپنے معاشرے میں، کتنے ہیں جو محض اپنی ذات کے حوالے سے نہیں سوچتے ، محض اپنے خاندان کے لئے خواب نہیں دیکھتے ۔ وہ اپنے معاشرے کے لئے سوچتے ، اپنی قوم اور ملک کے لئے خواب دیکھتے ہیں ۔ نواز شریف کا یہ دوسرا ایس ایم ایس اسی کی علامت تھا۔ بدترین حالات اور سخت ترین مشکلات میں بھی بہترین کی آرزو۔ بلاشبہ انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیادہ۔ایس ایم ایس بھیجنے والے کو یہ وصف ورثے میں ملا ۔ کبھی فرصت ہو تو شہباز صاحب 2 جنوری 1972 کا دن یاد کرتے ہیں ، بھٹو حکومت نے آتے ہی اتفاق فونڈریز پر ، ایک پیسہ ادا کئے بغیر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ پرائیویٹ سیکٹر میں سب سے بڑی اسٹیل مل تھی، میاں شریف کی زیرِ قیادت اتفاق فیملی کی 35 سالہ محنت شاقہ کا ثمر۔ اس کی ایک شاخ مشرقی پاکستان میں بھی تھی اور اب بنگلہ دیش حکومت کے قبضے میں چلی گئی تھی۔” اگلے روز اتوار تھا۔ والد صاحب کے ساتھ ان کے بھائیوں کے علاوہ میں ، نواز شریف اور ہمارے ہم عمر کزن بیٹھے تھے ۔ والد صاحب کا کہنا تھا کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے ۔ ہمارا سب کچھ چھن گیا تھا سوائے دو برف خانوں اور ایک کولڈ سٹوریج کے، اور وہ بھی سردیوں کے باعث بند پڑے تھے۔ ایک ٹیکسٹائل مل تعمیر کے ابتدائی مراحل میں تھی اور اس کی مشینری جس جہاز پر تھی، وہ جنگ کے باعث سعودی عرب میں لنگر انداز تھا۔ اس مشینری کے کاغذات چھڑانے کے لئے ایک کروڑ روپے کی ضرورت تھی اور سات بھائیوں کے پاس کل نقد رقم صرف 90 ہزار روپے تھی لیکن صاحبِ ایمان میاں محمد شریف خود بے حوصلہ ہوئے نہ اپنے بھائیوں کو بے حوصلہ ہونے دیا۔ بھٹو حکومت کی نیشنلائزیشن پالیسی کے باعث سرمایہ تیزی سے بیرون ملک منتقل ہو رہا تھا۔ صنعت کار اپنی بچی کھچی پونجی کے ساتھ شمالی امریکہ، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کا رخ کر رہے تھے لیکن میاں شریف اور ان کے بھائیوں نے پاکستان میں ہی رہ کر نئی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ یہ اپنی دھرتی کے ساتھ وفا کی ایک اور آزمائش تھی۔ 18 ماہ کی ریکارڈ مدت میں لاہور میں 6 نئے کارخانے قائم ہو چکے تھے۔ اس کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا ؟ ظاہر ہے اس میں اصل کرشمہ اتفاق فیملی کی کاروباری ساکھ اور امانت و دیانت کی شہرت کا تھا“۔
سفر ہے شرط ، مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
اپنے ملک کی قسمت سنوارنے اور اپنی قوم میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ شریف برادران کو اپنے گرامی قدر والد کی تربیت سے ملا ۔ انہوں نے بھی خواب دیکھے اور صرف خواب نہیں دیکھے بلکہ انہیں شرمندہ ٴ تعبیر کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ کالج سے فراغت کے بعد نوجوان نواز شریف ایمپریس روڈ والے دفتر میں بیٹھنے لگا ۔ بڑے میاں صاحب انہیں کاروباری دوروں پر بیرون ملک بھیجتے۔ وہاں وسیع و عریض شاہراہیں اور تیز رفتار موٹر ویز دیکھ کر اس کے دل میں خیال آتا ، یہ سب کچھ میرے ملک میں کیوں نہیں ؟ عظیم الشان ہوائی اڈے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں اپنے ملک میں ایسے ہی ہوائی اڈوں کا خواب مچلنے لگتا ۔ وہ عام آدمی کے لئے رہائشی سہولتیں دیکھتا تو سوچتا، آخر میرے ملک کے لوگوں کا کیا قصور؟ کیا ان کا حق نہیں کہ حکومت انہیں ڈھنگ کی رہائش مہیا کرے ؟ وہ اپنے ملک کے نوجوانوں کے لئے روزگار کا سوچتا۔ کسانوں اور بے زمین ہاریوں کی حالت ِ زار پر اس کا دل ملال سے بھر جاتا۔ ترقی یافتہ دنیا میں کمیونی کیشن کی جدید ترین سہولتوں پر وہ خود سے سوال کرتا کہ یہ سب کچھ میرے ملک میں کیوں نہیں؟ جہاں لوگوں کو ایک ٹیلیفون کنکشن کے لئے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر قدرت نے اسے موقع دیا تو وہ ان خوابوں کی تعبیر کے لئے سرگرم ہو گیا۔ اس میں اسے بہت جلدی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ بزرگ صدر سے اختلافات کا سبب نوجوان وزیرِ اعظم کی یہ پھرتیاں اور تیزیاں بھی تھیں۔ اس کا کہنا تھا ، ہم روایتی سرخ فیتے والے عمل کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ہمیں بھی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اس نے آتے ہی معیشت کو پابندیوں کی زنجیروں سے آزاد کیا۔ اکانومی کی لبرلائزیشن ، ڈی ریگولرائزیشن اور ڈی نیشنلائزیشن اس کے ایجنڈے کے بنیادی نکات تھے۔ 60 کی دہائی کے اواخر سے انجماد کی شکار معیشت انگڑائی لے کر بیدار ہو گئی۔ موٹرویز بننے لگے ، نئے ہوائی اڈوں کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ گرین چینل متعارف کروایا گیا۔ جدید کمیونی کیشن کے لئے فائبر سسٹم آگیا ۔ پیلی ٹیکسی سمیت نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے گئے ۔بے زمین ہاریوں کو زمینیں الاٹ ہونے لگیں۔ بنکوں کی ڈی نیشنلائزیشن اور سٹاک ایکسچینج میں اصلاحات قومی معیشت کے لئے نئی توانائی کا باعث بن گئیں ۔ اندرون ملک سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا۔ بیرونی سرمایہ کار بھی متوجہ ہونے لگے ۔ قومی معیشت ٹیک آف کر رہی تھی، اچھے دن آگئے تھے لیکن خوش قسمتی کا یہ عرصہ صرف اڑھائی ، پونے تین سال پر محیط تھا۔ نواز شریف کا دوسرا دور اس عالم میں شروع ہوا کہ معیشت زبوں حال تھی، ڈیفالٹ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا۔ یہ خطرہ ٹلا اور معیشت سنورنے لگی تو ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں عالمی اقتصادی پابندیوں نے آلیا۔ اس کے باوجود موٹر وے مکمل ہوئی۔ نئی شاہراہیں بننے لگیں۔ کوسٹل ہائی وے بنی اور گوادر پورٹ کا منصوبہ طے پایا ۔ لیکن یہ عرصہ بھی اڑھائی تین سال سے آگے نہ بڑھ سکا۔ 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف حکومت اس عالم میں برطرف ہوئی کہ ”اپنا گھر“ سکیم کے تحت 5 لاکھ فلیٹ زیرِ تعمیر تھے۔ لاہور ائیر پورٹ کے میگا پروجیکٹ پر کام ہو رہا تھا۔ ٹیکسٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح 13 فیصد تھی ( جو اب صرف 9فیصد ہے) ۔ یہ فہرست بہت طویل ہو سکتی ہے لیکن کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کیا یہ اعزاز کم ہے کہ ہندوستان کی نرسیما راوٴ حکومت نے پاکستان کی نواز شریف حکومت کی پالیسیوں کو رہنما بنانے کا فیصلہ کیا۔ آج ہندوستان کہاں ہے اور بد قسمتی سے ہم کہاں ہیں۔ لیکن قیادت پر عزم ہو ، وژن بھی رکھتی ہو اور اس کے لئے تجربہ کار ٹیم اور ماضی کا شاندار ٹریک ریکارڈ بھی، تو توقع کی جاسکتی ہے کہ کامرانیوں کے دن پھر سے لوٹ آئیں گے۔ پی آئی اے پھر دنیا کی عظیم الشان ائیرلائنوں میں شمار ہونے لگے گی۔
تازہ ترین