• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکمران اتحاد کا ناشتہ اجلاس، اپنے ہی ارکان کی مزاحمت کا سامنا،
ایسی خبریں کسی کے لئے خوش کن نہیں کہ حکمران اتحاد کے ناشتہ اجلاس میں اپنے ہی ارکان نے فیئر ٹرائل بل مجریہ 2012ء کی منظوری کے حوالے سے مزاحمت کی، مگر انہوں نے ناشتے کی مزاحمت نہیں کی، کہ حکمران اتحاد کا ناشتہ تقریباً پوری قوم کا ناشتہ ہوتا ہے، ہم اس بل کے بارے کیا عرض کریں ناشتے کی افادیت سے متعلق سعدی کا یہ مقولہ پیش کر دیتے ہیں شاید قوم کو بھی ناشتہ مل جائے، سعدی شیرازی فرماتے ہیں: نہ یک لقمہ صبح نہ دہ لقمہ شام نہ یک یارپختہ نہ ملادہ یا رِخام“
(صبح کا ایک لقمہ شام کے دس لقموں کے پر بھاری اور ایک پکا دوست دس کچے دوستوں سے بہتر ہے،) زرداری نے لگتا ہے گلستان بوستاں پڑھ رکھی ہے اسی لئے بل کی منظوری کے لئے شاہی ناشتے کا اہتمام کیا، لیکن انہوں نے یہ نہ سوچا کہ اس مقوی ناشتے نے تو ارکان حکومت کی آنکھیں کھول دی ہوں گی، اور انہوں نے مزاحمت کر دی بہرحال اب گنبدِ اقتدار کے مکیں کوئی ترکیب نمبر 11 استعمال کریں گے کیونکہ آج تک کوئی مشکل ان کا راستہ نہیں روک سکی
مجال گفتگو کس کو ہے اس کے حسن کے آگے
زبانیں بند کر دیں ان بتوں نے بے زباں ہو کر
ارکانِ حکومت نے مزاحمت تو کر دی مگر وہ یہ دیکھ لیں کہ کہیں پیر مغاں ان کا ناشتہ نہ کر لیں، بہر صورت یہ لیلائے اقتدار ایسی مقناطیسی کشش رکھتی ہے، کہ بقول خواجہ غلام فرید
تے بھل گئے سیں سگھڑ سیانے او یار
اور بالآخر سبھی آمنا پکا را ٹھیس گے اور کہیں گے
میں باندی تے بردی تیں دلبر دی او یار!
####
سالِ نو کا تحفہ یہ ہے کہ قوم کو جنوری سے 6 گھنٹے لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جب یہ بہادر نڈر قوم بلڈ شیڈنگ کا سامنا کر سکتی ہے تو لوڈ شیڈنگ کیا چیز ہے۔ کیسی عجیب بات ہے، کیسا طرفہ تماشا ہے، اور کیسی پیہم نراشا ہے کہ کئی روز کے بھوکے کے سامنے پلاؤ کی پلیٹ پڑی ہے مگر اسے کھانے کی اجازت نہیں۔ میرے چچا نے بتایا کہ دوسری جنگ عظیم میں وہ بحیثیت میجر کمانڈ کر رہے تھے، ان کی بٹالین کو فی کس ایک بسکٹوں کا ڈبہ دیا گیا تھا مگر اسے کھانے کی اس وقت تک اجازت نہ تھی جب تک مرکزی کمان سے کھانے کی منظوری نہ آ جاتی آج شاید کہیں ہو نہ ہو ہمارے ہاں توتیسری جنگ عظیم کا سا سماں ہے۔ کالا باغ بن جائے تو لوڈ شیڈنگ رہے نہ پانی کی کمی، اور بجلی بھی سستی ملے، ماہرین نے اس کو انتہائی بے ضرر مفید عوام منصوبہ قراردیا ہے مگر سنا ہے کہ اس کی تعمیر کو ہاتھ لگایا تو اتحاد ٹوٹ جائے گا سیاست روٹھ جائے گی، سارا ملک ڈوب جائے گا۔ ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے
پیچیدہ مسائل کے لئے جاتے ہیں ”امریکہ“
زلفوں میں الجھ آتے ہیں شامت ہے تو یہ ہے
کہتے ہیں کہ جب امریکہ میں نیو ایئر نائٹ منائی جاتی ہے، تو یوں لگتا ہے، کہ کہکشائیں زمین پر اتر آئی ہیں، اور یہ منظر ہوتا ہے
تھیں بنات النعش گردوں دن کے پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں
سال نو کے موقع پر جب دنیا میں اجالا ہی اجالا ہو گا ہمارے ہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہو گا، تو حکمرانوں کے گھر سویرا ہی سویرا ہو گا۔
####
عمران خان نے واضح کر دیا ہے کہ ملک میں ایک بار کڑا احتساب ہو گا، یہ نہیں بتایا کہ کب ہو گا، ممکن ہے عوام کو پتہ ہو مگر وہ بتائیں گے نہیں
ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم
کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لبِ گویا نہیں
خان صاحب کہیں یہ تو نہیں کہہ رہے ”تاپ چڑسی تے ٹھس کرسی“ ویسے شادی شدہ سیاستدانوں میں تاحال وہ غیر شادی شدہ سیاستدان ہیں، کہ انہوں نے کبھی عروسی سیاست کی مانگ میں سیندور نہیں بھرا، ووٹ تو ہر موسم میں کنوارا ہوتا ہے، پھر اس کا رخ ممکن ہے، کنواری سیاست والے کی طرف ہو جائے، اور ممکن ہے کہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے سرد و گرم چشیدہ سیاستدانوں کا میٹھا رسیلا جبر ان کا رخ اپنی طرف کر لے، ہم اپنے سیاسی ایرینا کے تمام شہ زوروں کمزوروں سے ایک عرض کرتے ہیں کہ وہ عندلیب شیراز کے اس نغمے کو ضرور یاد رکھیں
آسائش دو گیتی تفسیر ایں دو حرف است
با دوستاں تلطف با دشمناں مدارا
(دو جہاں کی آسائش ان دو حرفوں میں پوشیدہ ہے، دوستوں سے نرمی و مہربانی اور دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ)
ایک بار کڑا احتساب تو قیامت کو ہو گا، خان صاحب کوئی ہنگامی بنیادوں پر احتساب کا اعلان کریں۔ وہ ایسے سیاستدان ہیں کہ انتخابات اور انقلاب کا چوائس ان کے پاس موجود ہے۔ وہ نئی نسل کی اصل نسل کے نمائندے ہیں، اور جو پیروں کے استاد جوان ہیں یہ ان کی قیادت میں کچھ بھی کر سکتے ہیں، اس ملک کو انصاف چاہئے وہ چاہے کوئی بھی دے، زرداری دیدیں، نواز شریف دے دیں۔ عمران خان دے دیں۔
####
20 سالہ امریکی حسینہ اولیویا 88 حسیناؤں میں سے مس یونیورس منتخب ہو گئیں، یہ حسینائیں سرطان کے خلاف مہم بھی چلاتی ہیں۔
جسے ہم آج تک بیوٹی کریم سمجھتے رہے وہ مس یونیورس نکلیں، خدا کی شان ہے کہ اس کے نگارخانہ قدرت میں کیا کیا صورتیں ہوتی ہیں، اسی لئے تو غالب نے کہا تھا
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں، حیرانی ہے بلکہ پیشمانی بھی ہے کہ حسنِ مشرق کی دلکشی کے سامنے تو حوریں بھی شاید ہی ٹھہر سکیں، پھر کیوں ہماری سرزمین سے کبھی ایسے حسین مقابلوں میں حصہ نہیں لیا جاتا، یہ تو حسینہ کا حسینہ سے مقابلہ ہوتا ہے، حسین کا حسین سے نہیں، اس لئے اختلاطِ مردوزن کا بھی خطرہ نہیں، لیکن ہم چونکہ تھوڑے نادان وانجان ہیں کیا پتہ اس طرح کوئی کنگرہ گرنے کا اندیشہ ہو، کافی عرصہ ہو گیا کہ امریکی آرٹسٹ اور فوٹو گرافرز افغانستان میں دو آنکھیں تلاش کر رہے تھے، اور ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ایسی خوبصورت آنکھیں وجود نہیں رکھتیں جو انہوں نے ایک بار دیکھی پھر نہ جانے کہاں دنیا کی بھیڑ میں کھو گئیں، مگر آخر ان کو مل گئیں اور ان کی تصاویر بھی چھپیں، جس خطے کی آنکھ ہی حسینہ عالم ہو تو وہ پوری کی پوری تو حسینہِٴ کائنات ہو گی، بہرحال ہم نہیں چاہتے کہ جذبوں کے پھوڑے چھیڑیں، اور سنبھالے نہ جائیں۔ لیکن قرآن نے کہا ہے کہ ”اپنے رب کی نعمت کو چھپاؤ مت ظاہر کرو،“ آج کی دنیا میں آج کے ساتھ چلتے ہوئے اگر ہمارا دین ایمان مجروح نہ ہو تو چلنے سے روکا نہیں گیا، دو قدم چل کر دیکھیں اور یہ کتنی اچھی بات ہے کہ یہ دنیا بھر کی 88 حسینائیں کینسر کے خلاف مہم بھی چلا رہی ہیں، گویا وہ اپنے حسن کو جائز طریقے سے استعمال کر رہی ہیں۔ بہرحال مس یونیورس اولیویا کے حسنِ توبہ شکن کے لئے کچھ تو کہنا ہو گا سردست زنبیل سے یہ شعر ہی نکلا
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا اشارت کیا ادا کیا
تازہ ترین