• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے کی صورت میں سامنے آئی ہے جس کے تحت آنے والے ہفتوں یا مہینوں میں افغان سر زمین پر موجود 14؍ہزار امریکی فوجیوں کی تعداد تقریباً نصف کردی جائے گی۔ امریکی اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق جمعہ کے روز سامنے آنے والا فیصلہ کابل میں موجود سفارت کاروں اور حکام کے لئے چونکا دینے والا تھا مگر کچھ عرصے سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان جاری رابطوں، پاکستان سے کی گئی طالبان امریکہ بات چیت میں سہولت کاری کی درخواست، حکومت پاکستان کی طرف سے ہمیشہ کی طرح افغان امن عمل میں مخلصانہ کردار ادا کرنے کے جذبے کے اظہار اور بعض عسکریت پسندوں کو قید سے رہائی دینے سمیت امن عمل میں تعاون کے اقدامات ظاہر کررہے تھے کہ معاملات خاص رخ پر چل رہے ہیں۔ بدھ کے روز امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد مختصر دورے پر اسلام آباد آئے تو واپس جانے سے قبل ٹویٹر پر دئیے گئے ان کے پیغام میں طالبان امریکہ مذاکرات کے حوالے سے پاکستانی کردار پر اظہارِ تشکر نے صورت حال کو بڑی حد تک واضح کردیا تھا۔ جمعہ کے روز کابل حکومت کی طرف سے حقانی نیٹ ورک کے 9اراکین کو رہا کیا گیا تو یہ اشارے بھی دئیے گئے کہ مذکورہ رہائی افغان روڈ میپ کے تحت عمل میں آئی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ افغان روڈ میپ امریکہ اور طالبان مذاکرات کاروں کی کسی مفاہمت کے نتیجے میں ہی تشکیل پایا ہوگا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ منگل کے روز ابوظہبی میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے عسکریت پسندوں کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے سلسلے میں طالبان نمائندوں سے جو ملاقات کی اس میں طالبان کی طرف سے سراج الدین حقانی کے چھوٹے بھائی انس حقانی اور دیگر رہنمائوں کی آزادی کے مطالبہ کے ساتھ اس کے جواب میں امریکی و یورپی قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی گھٹانے کا فیصلہ بھی بظاہر منگل کے اسی اجلاس کا نتیجہ ہے۔ منگل ہی کے روز صدر ٹرمپ نے امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون کو اپنے اس ارادے سے آگاہ کیا تھا کہ وہ شام سے امریکی فوجیں واپس بلانا چاہتے ہیں۔ اس فیصلے سے اختلاف کی بناء پر امریکی سیکرٹری دفاع جیمزمیٹس جمعرات 20؍دسمبر کو اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ معاہدہ شمالی اوقیانوس (نیٹو) کی طرف سے امریکی فیصلے پر جو اختلافی ردعمل سامنے آیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیٹو کو مذکورہ فیصلے سے پیشگی آگاہی حاصل نہیں تھی تاہم نیٹو کے اس موقف کو روس سمیت کئی ممالک نے سراہا ہے کہ شام سے امریکی فوج کے انخلاء کے باوجود داعش کے خلاف کارروائی جاری رہنی چاہئے۔ اگست 2013ء میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے جنگی جہازوں کے شام کے قریب پہنچنے کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی اس پر نہ صرف روس اور ایران سمیت کئی ممالک کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آتا رہا ہے بلکہ شام کا بحران ہلاکتوں اور نقل مکانی کے باعث بڑے انسانی المیوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اب جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کے شام اور افغانستان سے فوجی انخلاء کے فیصلوں کو بعض حلقے درست اور دیگر حلقے منفی مضمرات کے حامل قرار دے رہے ہیں تو افغانستان اور شام کے پڑوسی ملکوں کی ذمہ داری اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یہ انخلاء اگر ادارہ جاتی ڈھانچوں کی تشکیل و تعمیر کے بغیر عمل میں آرہا ہے تو اس کے منفی اثرات سے اپنے ملکوں اور خطوں کو بچانے کے لئے مستعد رہیں تاکہ ان علاقوں میں وہ صورت حال لوٹ کر نہ آئے جو سوویت یونین کے زوال کے بعد افغانستان سے امریکہ کی واپسی کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھی۔ امریکیوں کو کبھی نہ کبھی مذکورہ دونوں مقامات سے واپس جانا تھا اور جانا ہے۔ پاکستان سمیت ان ملکوں کے پڑوس میں واقع ریاستوں نے بعد کے حالات کی مناسب تیاری کی تو یہ انخلاء اچھے نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ بصورت دیگر وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطٰی کو ایک نئی آزمائش کے دور کا سامنا ہوگا۔

تازہ ترین