• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو میں تینوں ہالوں میں ڈھونڈتا رہا۔ کتاب میلے میں کہیں نظر نہیں آئے۔آپ تو کتاب دوستی کا بہت دعویٰ کرتے ہیں۔ پھر کتابوں کی دُنیا میں کیوں دکھائی نہیں دیئے‘۔سال میں یہ پانچ دن ہوتے ہیں جب کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں سے حرف دوست پاکستانی ایکسپو سینٹر کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ آج اتوار ہے۔ تو کراچی والے زیادہ بڑی تعداد میں آئینگے۔ انشاء اللہ آپ سے آج تو ملاقات ہوہی جائے گی۔

بک سیلرز اینڈ پبلشرز ایسوسی ایشن سال میں پانچ دن تو اس کار خیر سے ثواب کمالیتے ہیں ورنہ سال بھر تو وہ بھی سیاستدانوں کی طرح جھوٹ ہی بولتے ہیں۔ مصنفین اور خریداروں دونوں کو حسب توفیق لوٹتے ہیں۔ کتاب میلہ یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ اکثریت کونسی کتابیں زیادہ پسند کرتی اور خریدتی ہے۔ عام طور پر اطلاع یہ ملتی ہے کہ سب سے زیادہ مذہبی کتابیں بکتی ہیں۔ پھر ذہن میں سوال آتا ہے کہ معاشرے میں اس کے باوجود منافقت کیوں ہے۔ جرائم پیشہ عناصر کو اپنا لیڈر کیوں مان لیتے ہیں۔

ان دنوں سب سے خوش آئند خبر یہ تسلیم کی جارہی ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف کی ملاقات ہونے والی ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ملک میں معیشت کا جو حال ہے غیر ملکی قرضوں کا جو بوجھ ہے۔ مہنگائی ہے۔ وہ ان باریاں لینے والوں کی وجہ سے ہی ہے۔ دونوں بڑے صوبے مسلسل دس سال سے ان کے تسلط میں رہے ہیں۔ اس عرصے میں کتنا استحکام آیا۔ کتنی خوشحالی ۔ خواندگی کی شرح کتنی بڑھی۔ کتنے پاکستانی غربت کی سطح سے اوپر آئے۔ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کتنی بڑھی۔ پہلے بھی یہ دونوں نہ جانے کتنی بار ملے ہوں گے ان کی ملاقات سے اس عظیم مملکت میں کتنی خوشحالی آئی۔ میڈیا بھی انہی خبروں سے اپنی ریٹنگ بڑھاتا ہے۔ ان کی ریٹنگ بڑھتی ہے۔ مملکت کی ریٹنگ کم ہوتی ہے۔

ملک کے حالات اچانک 25جولائی کے بعد تو خراب نہیں ہوئے۔ نہ ہی معیشت اچانک ڈوبی ہے اور نہ ہی اچانک قرضے بڑھے ہیں۔ پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) اپنے اپنے ابتدائی چھ ماہ سے ان چھ مہینوں کا تقابلی موازنہ کرلیں۔ کام تو یہ میڈیا کا بھی ہے۔

اکیسویں صدی میں بھی ہم قبائلی طرز معاشرت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ قبائلی سردار اچھا ہو برا ہو جرائم پیشہ ہو۔ قبیلے کے افراد اسے اپنا سردار ہی مانتے ہیں۔ اس کی شان میں قصیدے ہی پڑھتے ہیں۔ ساری سیاسی پارٹیوں کا حال بھی ان قبیلوں جیسا ہی ہے۔ میاں نواز شریف پر الزامات لگے تو پی ایم ایل(ن) با جماعت کہنے لگی۔ میاں صاحب تو اللہ والے ہیں ۔ پارسا ہیں۔ انہوں نے تو کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ ان کے خلاف الزامات ثابت تو کریں ۔ اب آصف زرداری صاحب کی باری آنی ہے تو پی پی پی کے سینئر جونیئر رہنما سب وہی راگ الاپ رہے ہیں ۔ جوں جوں گرفتاری کا وقت نزدیک آرہا ہے کورس میں یہ نغمہ بلند آواز سے گایاجارہا ہے۔ کیا ،ان لیڈروں ،کارکنوں کو نظر نہیں آتا کہ گزشتہ تین چار دہائیوں میں ان لیڈروںاور ان کے چھوٹوں کی املاک میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ بلاول ہائوس۔ رائیونڈ اسٹیٹ۔ اسّی کی دہائیوں میں کیا تھیں۔ اور اب کیا ہوگئی ہیں۔ بنی گالہ اسٹیٹ اگر بڑھی اور ناجائز ہے تو ان دونوں نے اپنے عرصۂ اقتدار میں اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی۔ہم تو دیکھتے ہیں کہ بہت سے خاندان پاکستان میں بڑے بڑے کاروبار کررہے ہیں۔ ان کے ہزاروں ملازمین ہیں۔ یہ اپنی مصنوعات برآمد بھی کرتے ہیں۔ ملک کو زر مبادلہ کماکر دیتے ہیں۔ ان کی املاک میں اس طرح اضافہ نہیں ہوا۔ ان کے کاروبار میں اتنی برکت نہیں ہے کہ ان کی اندرون ملک اور بیرون ملک بھی اتنی بڑی بڑی املاک ہوں ۔ غیر ملکی بینکوں میں اتنے اثاثے ہوں۔قانون کی حکمرانی اور تہذیبی روایات کا تقاضا تو یہ ہے کہ کسی بھی الزام کے عائدہونے کے بعد اس لیڈر کو خود حکومتی ، پارٹی عہدوں سے الگ ہونا چاہئے اور انتظار کرنا چاہئے کہ عدالت سے فیصلہ ہونے کے بعد وہ پارٹی کے عہدے پر بحالی کا فیصلہ کرے۔ اگر لیڈر خود الگ نہیں ہوتا تو پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کو یہ طے کرنا چاہئے کہ وہ اپنے رہبر اعلیٰ پر زور دے کہ وہ مستعفی ہوں۔ پارٹی کی قیادت ایسے فرد کو سونپی جائے جس کا دامن ایسی آلائشوں سے پاک ہو لیکن ہمارے ہاں پارٹیاں پرانے روایتی قبیلے بن چکی ہیں۔ قبائلی سردار سے اختلاف کی کسی میں جرأت نہیں ہے۔بلکہ سب اسے پارسا ئے اعلیٰ کا رتبہ دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو جمہوری کہتے ہیں۔ لیکن جتھہ بندی۔ عسکری طریقے کی ہے وہاں بھی کوئی چون و چرا نہیں ہوتی ۔عوام کا تو ایک ہی سوال ہے کہ پاکستان پر کئی ہزار ارب کے غیر ملکی قرضوں کا جو بوجھ ہے وہ قرضے کہاں لگے۔ کونسے منصوبے ان قرضوں سے بنے۔یہ تو اچھا ہے کہ بہت سے ادارے۔ افراد۔ اپنے طور پر ملک کو آگے لے جارہے ہیں۔ درسگاہوں میں تحقیق ہورہی ہے۔ اخوّت جیسے ادارے غربت کے خاتمے کے لئے وسیع پیمانے پر کوششیں کررہے ہیں۔ محلّوں میں بھی مخیّر بزرگ مائیں بہنیں اپنے طور پر خیال رکھتی ہیں۔ لیکن مملکتیں اور حکومت بھی اگر اپنی آئینی ۔ قانونی۔ مالی۔ سماجی ذمہ داریاں انجام دے رہی ہوں تو ملک میں ترقی کی رفتار وہی ہوسکتی ہے جو ترقی یافتہ ملکوں کی ہے۔ پاکستان کے عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ان چند خاندانوں کے حصار سے نکلیں۔ یونیورسٹیاں۔ ریسرچ ادارے راستہ دکھائیں کہ الیکشن کے قوانین۔ طریقے اس طرح بدلے جائیں کہ پڑھے لکھے۔ ماہرین ۔درد مند پاکستانی بھی پارلیمنٹ میں پہنچ سکیں۔یہ چند خاندان ہیں جو ساری پارٹیوں پر قابض ہیں۔ پی پی پی ۔ مسلم لیگ(ن)۔ پی ٹی آئی۔ سب انہی خاندانوں کی اجارہ داری میں ہیں۔ چھوٹے لیڈر۔ سیاسی کارکن ان کے غلام ہیں۔ ان کے درباری ہیں۔

چلتے چلتے کچھ وہ کوششیں بھی دیکھ لیں جو معاشرہ اپنے طور پر کررہا ہے۔ میڈیا کونسل برائے خواتین کی حمیرا موٹالا نے میڈیا میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے موضوع پر کے ایم سی بورڈ روم میں ایک ورکشاپ منعقد کی۔ جہاں میئر وسیم اختر تھے۔ ڈی آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ۔ صدر پی ایف یو جے جی ایم جمالی۔ سندھ ویمن کمیشن کی سربراہ نزہت شیریں۔ ممتاز ڈرامہ نگار نور الہدیٰ شاہ۔ مصنّف سابق سیکریٹری نسرین پرویز مقررین تھے۔ اور سامنے ہمارے مستقبل کی صحافی۔ اینکر پرسن۔ بلاگرز تھیں۔ بہت سیر حاصل بحث ہوئی۔ قوانین سے آگاہی بھی۔ ایسی نشستیں سی جی اور قانونی شعور میں بہت مدد کرتی ہیں۔ طلعت رحیم سابق سرکاری افسر ہیں۔ چار کتابیں تصنیف کرچکی ہیں۔ تازہ ترین کتاب If Born Again کی رونمائی ہے۔ جاوید جبار صدارت کررہے ہیں۔ اس کتاب میں پاکستان اور بھارت کے مختلف شعبوں کے نامور لوگوں سے گفتگو ہے کہ اگر انہیں دوسرا جنم ملے تو وہ کیا بننا چاہیں گے۔ سامعین بہت زیادہ تعداد میں ہیں۔ شمیم احمد صاحب کی گفتگو لاجواب ہے۔ انگریزی اُردو دونوں بہت مرصع۔ 17سال سے ہر ہفتے ایک کتاب پر تبادلۂ خیال باقاعدگی سے کرنے والے ریڈرز کلب کی نشست ان دنوں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ میں ہورہی ہے۔ کئی سینئر وکلا اور ججوں کے استاد پروفیسر حبیب الرحمن اپنی ایک ہزار سے زیادہ صفحات پر مشتمل بینکنگ قوانین سے متعلق کتاب پیش کررہے ہیں۔ حاضرین سوال جواب کررہے ہیں۔ یہ نشستیں حرف و دانش کو آگے بڑھارہی ہیں۔لیکن ان کا بڑے میڈیا پر کہیں ذکر نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان سے قوم کی تعمیر ہوتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین