• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت پاکستان کے بڑے مسائل میں امن عامہ کی خرابی، بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ تاجر اور صنعت کاروں کا بڑھتا ہوا عدم اعتماد بھی اس میں شامل ہے لیکن اس طرف کوئی دھیان نہیں دیتا کہ ہماری صنعتی اساس کا مدار اپنے زمینی اثاثوں کی بجائے بیرونی اثاثوں پر ہے، اسلئے ہم ترقی کے ارتقائی سفر سے محروم ہیں۔ ہم ٹیکنالوجی سے بھی محروم ہیں جو فوری طور پر منڈی پر قبضہ کر لیتی ہے۔اندازہ کیجئے ؟ بیرونی کمپیوٹر، سیلولر فونز، سپر کنڈکٹر، لیزر اور جینیٹکس ایسی چیزیں جو مارکیٹوں پر جبری قبضہ کر کے جبری طلب پیدا کر لیتی ہیں۔ تو پھر روپے کی قدر کم تو ہو گی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم خود بھی بے ایمانی ایمانداری سے نہیں کرتے جس کی وجہ سے ترقی کے راستے مسدود ہو گئے ہیں حالانکہ ہمارا ملک قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہے۔ امریکہ اسی لئے اپنے حواریوں کے ساتھ وسائل لوٹنے کب سے اس خطے میں موجود ہے ہم شماریاتی معاشیات کے زور پر کرنسی، سٹہ بازی اور سود کا کھیل کھیلنے میں مشغول ہیں۔ پاکستان کا المیہ یہ بھی ہے کہ ابتدا ہی سے پاکستان کو حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاطر امریکہ کے حوالے کردیا۔ شروع شروع میں گرانٹ ملتی تھی جوں جوں امریکی مفادات کم ہونا شروع ہوئے گرانٹ کم ہونا شروع ہو گئی اور قرضوں کا سلسلہ بڑھنے لگا اور یوں پاکستان معاشی ریاست کی بجائے مقروض اور سیکورٹی ریاست بن گیا جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ بے علم قومیں بے عمل اور بے حس ہو جاتی ہیں اور تخلیقی عمل سے دور ہو جاتی ہیں۔ تاریخ اقوام عالم گواہ ہے کہ تخلیق کے عمل سے جہاں سماج کا نیا آرڈر پیدا ہوتا ہے وہاں سماج کا پرانا نظام مسمار ہو جاتا ہے جو اس نکتہ رس بات کو نہیں سمجھتے وہاں کلچر ارتقاء سے پیچھے رہ جاتا ہے پھر انتشار ہی انتشار رہ جاتا ہے۔ اس کا نام عدم مطابقت اور معدومیت ہے جس کے نتیجے میں عوام کو تعلیم و علم سے آراستہ نہیں کیا جاتا تو ان کی صلاحیتیں ڈھیر ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد 25 سال کے نوجوانوں پرمشتمل ہے اگران کو کارآمد نہ بنایا گیا تو یہ ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ دیکھتے ہیں کہ پچھلے ایک عشرے میں پاکستان میں کیا ہوا اور کس طرح غریبوں کی درگت بنائی گئی اور کیسے جعلی معیشت کو فروغ دیا گیا۔
جنرل مشرف جب تختہ الٹ کر براجمان ہوا۔ منی لانڈرنگ کے ماہر اور سٹی بینک کے ایک بینکار شوکت عزیز کو جنرل مشرف نے اپنا عزیز ترین ساتھی بنا دیا ان کو خاص موقع پر وزیر خزانہ سے وزیراعظم بنا دیا گیا جو سیاسی طور پر کونسلر بھی نہیں بن سکتا تھا۔ معین قریشی اور شوکت عزیز دونوں عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے تربیت یافتہ ایجنٹ ہیں ان کو علم ہے کہ شماریاتی جعلی معاشیات کیسے چلائی جاتی ہے۔ میکرو اکنامکس کے اشاریئے اور اوپر اوپر کی ریل پیل سے کس طرح عوام کو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ شوکت عزیز نے امریکی معیشت کی پیروی کرتے ہوئے کنزیومر ازم کو فروغ دینے کیلئے اسٹیٹ بینک کو ہدایت کی یا گورنر سے ملی بھگت سے مانیٹری پالیسی میں 300فیصد ”یو ٹرن“ لیا اس سے پہلے اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر یعقوب کے دور میں لینڈنگ ریٹ یا قرضوں کی شرح سود 23 فیصد تھی اسے ڈاکٹر عشرت حسین 5 سے 6 فیصد تک لے آئے جب کہ امریکی ریزرو بینک کے چیئرمین اور عالمی معاشی غارت گر گرین اسپین نے سود کی شرح کے بارے میں کہا تھا ”اگر ہم شرع سود میں ایک فیصد بھی کمی یا زیادتی کرتے ہیں تو ہمارے کانپتے ہاتھوں سے پیمانے گر جاتے ہیں“ لیکن پاکستان میں تین گنا مونیٹری پالیسی کو واپس لایا گیا پھراس کے اثرات قومی بچتوں پر پڑے، بیوائیں اور ریٹائر لوگ جو 18 فیصد سود پر گھر چلا رہے تھے وہ سڑکوں پر آگئے ان کو اسٹاک مارکیٹ کا راستہ دکھایا گیا جہاں کھلاڑی اور شکاری تیار بیٹھے تھے۔ ملی بھگت اور اندرونی کھیل سے کھلاڑیوں نے اپنے وقت کے مطابق اسٹاک مارکیٹ کو گرا دیا یوں کھلاڑی جیت گئے اور چھوٹے سرمایہ کار اناڑی ہار گئے اور لٹ گئے۔ اسکے بعد پہلے سے مالدار مزید مالدار ہوگئے لیکن اسکی تحقیق فوری طورپر نہ کی گئی بلکہ میرے پوچھنے پر اس کے ایس ای سی پی کے چیئرمین نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بھڑوں کے چھتے میں کون ہاتھ ڈالے؟
آئی ایم ایف نے در پردہ شوکت عزیز کو یہ ہدایت کی کہ ہم تمہارا جعلی کشکول اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کی آڑ میں توڑ دیں گے۔ تمہارا ڈالر ، روپیہ پیرٹی بھی 60 روپے فی ڈالر تک کیپ کر دیں گے تم نے یہ کرنا ہے کہ جب انتخابات ہوں تو اس وقت درآمد اور برآمد میں اتنا بڑا فرق رکھنا تاکہ توازن ادائیگیوں میں18سے20/ارب ڈالر کا خسارہ ہو اور آنے والی کوئی حکومت بھی ہو ہمارے قدموں پر آجائے اور 60 روپے فی ڈالر کا کیپ ہٹا دیں گے جس سے مالیاتی انتشار اور مہنگائی کی وجہ سے آنے والی حکومت کو ہم جو کہیں گے وہ کرے گی چنانچہ بالکل ایسے ہی ہوا۔ یہ بھی ہدایت دی گئی کہ کنزیومر ازم کو متعارف کرایا جائے چنانچہ اس کے لئے کریڈٹ کارڈز، پرسنل لونز اور گاڑیاں لیزنگ پر دینے کے لئے بینکوں کو بلواسطہ طور پر تیار کر دیا گیا۔ کریڈٹ کارڈز ایک پسماندہ ملک میں تاش کے پتوں کی طرح بانٹے گئے۔ لوگ نچلی سطح پر قرضدار ہوگئے، افراط زر افغان جنگ کی وجہ سے نوٹ چھاپنے پر عروج پر پہنچ گیا۔ مہنگائی نے کریڈٹ کارڈز کی ادائیگیوں کے ساتھ عوام کی قوت خرید کا ستیاناس کردیا، جرائم بڑھنے لگے پھر بے روزگاری نے بھی زور پکڑا، خود کش حملے تیز ہوئے، ڈرون حملے مشرف کے معاہدے کے تحت جس کے عوض 18/ارب ڈالر لئے گئے گاہے بہ گاہے ہونے لگے۔ ایئربیس دیئے گئے، گوادر پورٹ جو پاکستان کی معاشی لائف لائن ہے اس سے منہ موڑ لیا گیا۔ اسی دوران ڈاکٹر عشرت حسین نے پانچ ہزار روپے کا نوٹ چھاپ کر یہ کہا کہ 5 ہزار روپے کی قیمت ایک ہزار روپے ہوگئی ہے اس لئے ایسا کرنا پڑا جب ڈاکٹر شمشاد آئیں تو انہوں نے مونیٹری پالیسی کو توازن میں لانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ کر سکیں اور وہ کہتی رہیں کہ امانت داروں کو کچھ نہیں مل رہا اور انہی کی ڈپازٹ سے بینک منافع کما رہے ہیں۔ آج کے حالات میں بھی بینکوں کے منافع جات مجموعی طور پر 152 فیصد پچھلے برس سے زائد ہیں یہ مونیٹری پالیسی اور شوکت عزیز کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔
مونیٹری پالیسی کے بارے میں امریکہ کے تیسرے صدر ٹامس جیفرسن نے کہا تھا ”بینکوں کے پاس مونیٹری پالیسی کے اجراء کے اختیارات کسی دشمن کی فوج سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ آج ہمارے پرکھوں کی جائیداد 70 فیصد ہمارے پاس ہے مستقبل میں قرضوں کے عوض بینکوں میں گروی ہو جائے گی“۔ 200 سال پہلے کہی ہوئی بات آج سرمایہ دارانہ نظام نے سچ ثابت کر دکھائی۔ امریکی صدر ابراہم لنکن نے اعلان کردیا تھا کہ حکومت خود مونیٹری پالیسی کا اجراء کرے گی۔ چنانچہ عالمی بینکاروں نے ایسا نہیں ہونے دیا اس اعلان کے دو ہفتے بعد ابراہم لنکن کو قتل کردیا گیا۔ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہونے پر کنیڈی کو بھی قتل کردیا۔ اب تو عالمی بینک اور آئی ایم ایف بینکوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں جتنے بھی وزرائے خزانہ متمکن ہوئے سوائے ڈاکٹر مبشر حسن کے سب ہی عالمی بینک کے تربیت یافتہ ہیں اور ان کی ہدایت پر عمل کرتے رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی المیہ ہے کہ مقامی برآمد کنندگان اور درآمد کرنے والوں نے جو کرپشن ”انڈر انوائسنگ“ اور ”اوور انوائسنگ“ کے ذریعے کسٹم اور دیگر حکام کی ملی بھگت سے کرتے چلے آئے ہیں اس سے ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ ایک پہلو ہے تمام پہلوؤں کی کرپشن پرکئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ترسیلات زر جو بیرون ملک سے محنت کشوں سے واسطاً 12/ارب ڈالر موصول ہوتی ہے اس کے لئے اسٹیٹ بینک نے پی آر آئی (PRI) نامی ایک دستاویز جاری کی ہے اس کی آڑ میں بھی کرپشن ہو رہی ہے اور اب بھی غیر قانونی طور پر 20/ارب ڈالر ملک میں آتے ہیں۔ گزشتہ 65 سالوں میں ہزاروں کرپٹ جونکیں حکمرانیت کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ان سب کی ڈھال بیورو کریسی ہے ان سب حکمرانوں کی 300 ارب ڈالر سے زائد باہر کے بینکوں میں جمع ہیں، ملک میں بھی ان کے محل نما گھر ہیں ان کے اندر بھی اسٹرانگ رومز موجود ہیں اس لئے ڈالروں اور کرنسیوں کی کمی نہیں اور قدرتی وسائل سے بھی پاکستان مالا مال ہے لیکن پاکستان کے عوام غربت میں غریب ترین ملکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ آئندہ مزید اس کرپشن کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی جائے گی کیونکہ چور چور کا ایسا شور مچایاجاتا ہے تاکہ محسوس ہو کہ صرف صدر آصف علی زرداری کے علاوہ سبھی پارسا ہیں۔
تازہ ترین