• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفا، قربانی اور برداشت کی پتلی عورت تکوینِ کائنات میں خالق کی شریک کار ہے اور تخلیق کی خو اسے ذوقِ تعمیر کے ساتھ منسلک کر کے اس کی محنت اور بے لوث لگن کا دائرہ کار وسیع کردیتی ہے۔ اپنی تعمیری اور تخلیقی امکانات کی عکاس فطرت کے زیر اثر وہ ریت کے گھروندے کی تعمیر سے زندگی کا آغاز کرتی ہے۔ نئے زمانے میں دفتری کاموں کے اوقات مقرر ہونے کے باوجود وہ ایسی کل وقتی ملازم ہے جو صلے کی تمنا اور ستائش کی آرزو سے قطعی بے نیاز ہے۔ ملازمت تو دراصل گھر، اولاد اور کنبے کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ اضافی ذمہ داری کا چارج ہے جو ذات کے اظہار کے ساتھ ساتھ خاندان کی بقاء اور معاشرے کی فلاح کا آئینہ دار ہے۔ وہ اس مقصد کے لئے گھر سے نکلتی ہے تو پورے عالم کو ایک گھر میں ڈھالنے کی خواہش اس کے دل میں ابھرتی ہے۔ وہ امن، محبت اور انسانیت کی پیامبر بن کر اس کائناتی گھر کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ تعمیر کا یہ خواب اسے کھیتوں سے بھٹوں اور کارخانوں سے دفاتر کی جانب سفر کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ سفر اس کی مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کا مظہر ہے۔ اسے مظلوم اور بے سہارا کہلوا کر امداد طلب کرنا پسند ہے نہ ہی کوئی اور رعایت حاصل کر کے فرائض سے پہلوتہی کرتی ہے بلکہ بعض حالات میں تو وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ دیانت داری، ذمہ داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
پاکستانی معاشرے اور سوچ کے تناظر میں محنت کش خواتین کا جائزہ لیا جائے تو مثبت اور منفی دونوں رویے موجود ہیں۔ ایک طبقہ عورتوں کے کھیتوں، بھٹوں اور گھروں میں کام کرنے کو برا نہیں سمجھتا مگر سرکاری دفاتر، سیاست اور اعلیٰ عہدوں پر جہاں اس کی ذات کی ترجمانی اور صلاحیتوں کا بھرپور اظہار بھی ہو بالکل پسند نہیں کرتا۔ یہاں مخالفت کی وجہ اس کے کام کی نوعیت نہیں بلکہ ان صلاحیتوں کے اعتراف میں تذبذب کا باعث ہے جو بطور انسان اس کے تشخص کو اجاگر کرتی ہیں۔ گویا مسئلہ چار دیواری سے باہر آنے کا نہیں، برابری اور برتری کا بھی نہیں، تسلیم کرنے کا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ بدلتے ہوئے سماجی منظر نامے میں ایک طبقہ اسے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بھرپور مواقع دینے کا خواہاں بھی ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں جب مختلف توجیہات کے ذریعے عورت کی حیثیت کو کمتر کرنے کی کوشش کی گئی تو اسی سماج جو اگرچہ قبائلی اور پسماندہ سوچ کے زیر اثر نظر آتا ہے کی طرف سے اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی گئی اور اسے کامیاب نہ ہونے دیا گیا۔ بدقسمتی سے ایک طبقہ ٴ فکر آج بھی عورت کی تعلیم اور اقتصادی آزادی کے حوالے سے ہر قسم کی نئی سوچ کو خوش آمدید کہنے سے نہ صرف انکاری ہے بلکہ پتھر کے زمانے کا حامی ہے اور مختلف معاملات کو مذہبی تناظر میں اپنی مرضی کا رنگ دے کر اسے اس کے ان حقوق سے محروم کر دینا چاہتا ہے جو دین اور آئین کی طرف سے اسے حاصل ہیں۔ اس بابت دینی احکام سے حوالہ دینے والے بھول جاتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہونے کے باعث ہمیشہ باقی رہنے والا دین ہے اور اسی لئے اس میں اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھ کر بدلتے زمانے کے نئے اور مثبت نظریات کو جذب کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ یعنی ہمارے اندر دونوں رویے اور قوتیں موجود ہیں، مثبت پہلو اگرچہ زیادہ طاقتور ہے مگر فرسودہ رسم و رواج اور پسماندگی کے دھاگوں سے بنی خوف کی چادر کی اوٹ میں ہے اور ابھی تک کھل کر سامنے آنے سے گریزاں ہے تاہم محترمہ فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو کو اسی سماج کے روشن خیال اور ترقی پسند فکر کے حامل لوگوں نے حکمران چن کر عورت کے حوالے سے اپنی مثبت سوچ کی عکاسی کی۔ مثبت سوچ اور رویے کی حامل قوتوں کی اخلاقی مدد اور خود اپنی سخت جدوجہد کے بعد آج کی پاکستانی محنت کش خاتون ہر شعبہٴ زندگی میں اپنے نام کی تختی چسپاں کرنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ معاشرے کی سوچ کو بدلنے اور اسے ساتھ لے کر چلنے کی طاقت سے مالا مال ہے اور شاید اسی لئے آج کسی عورت کے ساتھ کہیں ناانصافی ہوتی ہے تو اس ناانصافی کے حق میں کوئی نہیں بولتا، سب اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔
ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق، مراعات، تحفظ اور صنفی امتیاز کے خاتمے کے لئے جہاں پارلیمنٹ نے تاریخ ساز متفقہ قانون سازی کر کے روشن خیالی کا ثبوت دیا ہے وہیں پنجاب حکومت نے بھی مثالی قوانین بنا کر اور اقدامات اٹھا کر قومی ترقی کے دھارے میں خواتین کے کردار کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ انہیں مزید ترقی کے مواقع بھی فراہم کئے ہیں اور عورت کے بارے میں روایتی فرسودہ تصورات کو زائل کرنے کی کامیاب سعی بھی کی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ تمام قوانین ایسے ہیں جو فوری طور پر لاگو ہو چکے ہیں مثلاً بیوی کی زچگی کے باعث خاوند کے لئے Maternity Leave، ملازمت میں مخصوص کوٹہ 5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنا، عمر کی حد میں 3 سال کی مزید رعایت، اداروں میں ڈے کیئر سنٹرز کا قیام وغیرہ۔ یقینا پاکستان کے دوسرے صوبے بھی پنجاب کی تقلید کرتے ہوئے ملازمت پیشہ خواتین کے لئے اس طرح کے اقدامات کر کے قومی ترقی میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنائیں گے۔
ایک چینی کہاوت ہے جو قوم زیادہ قوانین بنانے شروع کر دے سمجھ لو اس پر بڑھاپا آ رہا ہے۔ عورتوں کے مفاد اور بہبود پر مبنی قوانین سازی کے حوالے سے پاکستان بہت آگے جا چکا ہے۔ مذہب اور آئین میں بھی حقوق کا باب خاصا روشن ہے مگر بات عمل کی ہے اور اصل مسئلہ سماجی رویوں کی تبدیلی کا ہے جسے تعلیم کے فروغ اور معاشی انصاف کی فراہمی پر مبنی سوشل آرڈر کے بغیر رونما نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں ظاہری طور پر دیکھیں تو ہمارے ہاں سماجی رویوں اور صنفی امتیاز کی صورتحال خاصی دگرگوں نظر آتی ہے لیکن اگر حقیقی صورتحال کو معروضی انداز سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ حقوقِ نسواں کے باب میں انتہائی ترقی یافتہ معاشروں میں بھی چند عشرے پہلے تک خاصی مایوس کن کیفیت تھی۔ مثلاً ستر، اسی سال پہلے تک امریکہ میں عورت کو ووٹ دینے کا حق تھا نہ ہی حق ملکیت تک اس کی رسائی تھی اور 1882ء تک صنعتی انقلاب برپا ہونے کے باوجود عورت کو قانونی طور پر اپنی محنت اور معاوضے کو اپنی مرضی سے تصرف میں لانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ چند مثالیں پاکستانی معاشرے خصوصاً ہمارے دور افتادہ علاقوں اور دیہی معاشرے میں موجود عدم تفاوت اور عورت کی اہمیت کو تسلیم نہ کرنے پر مبنی صدیوں پرانے تعصبات و توہمات کا جواز فراہم کرنے کے لئے درج نہیں کی گئیں بلکہ ان مثالوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عورت کے بارے میں ایک خاص طرح کی عصبیت رکھنا پدر سری معاشرے کی ساخت اور مفاد کا تقاضا ہے جسے شعور اور تعلیم کی روشنی پھیلا کر ہی ختم کیا جا سکتا ہے اور اس حوالے سے ہم عصر پاکستانی سماج میں ہر لحظہ رونما ہوتی سیاسی، معاشی اور ہیئتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آئندہ کا منظر نامہ حقوقِ نسواں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی معاشی و اقتصادی آزادی اور سماجی رویوں میں مثبت تبدیلی کے امید افزا پیغام سے عبارت ہے۔
پاکستانی عورت نے زمین، فضاؤں، ہواؤں اور سمندروں میں حوصلہ مندی کا ثبوت دے کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ مضبوط قوتِ ارادی کی مالک ہے اس لئے صنف ِ نازک کا لیبل لگا کر اسے الگ خانے میں رکھا جائے اور نہ ہی اس کا دائرہ کار محدود کیا جائے۔ آج پوری دنیا زبان، نسل، مذہب اور ہر قسم کی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کر کے وحدت کی طرف گامزن ہے اس لئے ضروری ہے کہ جنس کی بنیاد پر عورت اور مرد کی تخصیص بھی ختم کر کے فرد کی بات کی جائے۔ پھر برابری، کمتری، برتری اور انا کے تصورات ازخود ختم ہو جائیں گے اور اصل قانون بھی رویوں کی تبدیلی سے ہی لاگو ہوں گے۔
تازہ ترین