• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کا بننا کوئی بہت دور کی بات نہیں ہے۔ ابھی وہ نسل بھی زندہ ہے جس نے پاکستان کو وجود میں آتے دیکھا ہے اور وہ نسل بھی موجود ہے جس کی نظروں کے سامنے یہ ملک پرامن ریاست تھا اور دیکھتے دیکھتے دہشت گردی، انتہاپسندی، عدم برداشت، گروہ بندی، تنگ نظری، تعصبات اور منفی رجحانات کا شکار ہو گیا۔
آج آپ پاکستان کی صورتحال کا مطالعہ کریں تو یہ اندازہ لگانا ذرا مشکل نہیں ہوگا کہ پاکستان کس جگہ کھڑا ہے اور دشمنوں کے درمیان کس طرح گھرا ہوا ہے۔ سیاسی لیڈر، ان کی جماعتیں مخصوص مفادات کے لئے محبت کا پیغام عام کرنے کے بجائے عوام میں نفرتوں کا زہر پھیلا رہے ہیں اور ریاست کے مفادات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ منفی رجحانات کو بڑھاوا دینے سے سچّائی ظاہر نہیں ہو سکتی اور نہ ملک ترقی کر سکتا ہے۔ اس طرح ملک کی خدمت نہیں دشمنی کی جا رہی ہے۔ذرا اس بات کا اندازہ لگایئے کہ پاکستان میں تہذیبی اقدار اور معاشرتی نظام کس تیزی سے ٹوٹ پھوٹ رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس رویّے سے لگ رہا ہے جو ہر سطح پر عوام، اشرافیہ اور حکمرانوں نے اختیار کر رکھا ہے۔ آج ظلم کو ظلم کہنا مشکل ہے، برائی کو برائی نہیں کہہ سکتے۔ لوگ الزام تراشیاں اور نعرہ بازی کو سیاست سمجھ رہے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کا یہ حال ہے کہ وہ بڑے سے بڑا جھوٹ بولنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔ کرپشن کو وہ کرپشن نہیں سمجھتے۔ جب میڈیا اور اخبارات کے ذریعے برائی سامنے آ جاتی ہے تو وہ میڈیا اور اخبارات پر برس پڑتے ہیں۔ قومی میڈیا ذمہ دار ہے اور وہ پوری ذمہ داری سے عوام کے سامنے سچ لا رہا ہے۔ اگر کہیں سچ کے ساتھ جانبداری کا عنصر داخل ہو جاتا ہے تو اخبار کا قاری اتنا احمق نہیں ہے کہ بدنیتی کو نہ سمجھے لیکن اب تک جتنی تحقیقاتی رپورٹنگ ہوتی رہی ہے وہ درست ثابت ہوئی ہے۔
اب الیکشن کے واقع ہونے میں کتنے دن باقی ہیں، انگلیوں پر گن لیجئے۔ صوبہٴ خیبر پختون خوا ، بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ لوگ سوچ رہے ہیں کہ کیا ان حالات میں شفاف انتخابات ہوں گے۔ کچھ بھی ہو انتخابات ہونے چاہئیں۔ اگر انتخابات نہ ہوئے یا ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو گئی تو یہ بہت بڑا المیہ ہو گا۔
کسی بھی حکومت نے کبھی اندرونی سیکورٹی کے نظام کو فول پروف نہیں بنایا جس کا نتیجہ یہ ہے فضائیہ اور فوج کی تنصیبات اور مراکز پر حملے ہو رہے ہیں، پولیس پر حملے ہو رہے ہیں اور حملہ آور کہاں کہاں سے چل کر پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں۔ بے عملی اور جزا و سزا کا موٴثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی کا تصوّر ایک مذاق بن چکا ہے۔
ریاستی اداروں کا یہ حال ہے کہ وہ یا تو اپنی حدود سے واقف نہیں ہیں اور آئے دن حدود کو توڑتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے تصادم کی فضاء بن گئی ہے، معاشرے میں نفرتوں کا زہر پھیل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو اور ہماری زمین کو اس طرح تخلیق کیا ہے کہ وہاں ٹکراؤ کا شائبہ تک نہ رہے اور کائنات کی ہر چیز اپنے مجوزہ راستے پر چلتی رہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی وضع کردہ فطری حد سے تجاوز نہ کرے اور یہ اصول جبری طور پر کائنات کے ہر ذرّے پر نافذ ہے۔ انسان کو یہ اختیار اللہ نے دیا ہے کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرتے ہوئے صداقت اور سچّائی کے راستے کو اختیار کرے یا برائی کی طرف چل پڑے۔ دونوں کا انجام اس کو پتہ ہے۔ نبی کریم ابدی طور پر قیامت تک قرآن حکیم کا عملی نمونہ ہیں۔ اہل ایمان کو اسوئہ رسول کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ ”اللہ نے ہر معاملے کی ایک حد قائم کردی ہے، تم اس سے تجاوز نہ کرو۔ (وحدّ حدوداً، فلا تعتدوھا) اور جب وہ تجاوز کرتا ہے تو اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں۔“
گزشتہ دنوں اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ کراچی میں مسافر بس سے دو ازبک باشندے گرفتار کر لئے گئے۔ دونوں ازبک خیبر پختون خوا سے آئے تھے۔ پشاور ایئرپورٹ پر جو حملہ ہوا تھا اس میں بھی ازبک دہشت گرد ملوّث تھے۔ اس سے ایک بات تو یقینی حد تک کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کا اندرونی سیکورٹی نظام کا انفرااسٹرکچر ہی ناقص ہے میں نے کئی مرتبہ ان ہی کالموں میں اس کا تذکرہ کیا۔ جب پرویز مشرف برسر اقتدار تھے تب بھی میں نے یہ لکھا تھا کہ پاکستان کے اندرونی سیکورٹی نظام کو اس طرح سے منظم کیا جائے کہ وہ پاکستان کی سلامتی کیلئے فول پروف حیثیت رکھتا ہو۔ اگر ہم ذرا اور پیچھے جائیں تو یہی بات اور اندرونی سیکورٹی کے حوالے سے میں نے اندیشوں کا اظہار اس وقت کیا جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغانوں کا سیلاب بلاخیز پاکستان میں آ رہا تھا۔ پاکستان میں آنے والے افغانیوں کی تعداد چالیس لاکھ کے لگ بھگ تھی اور ایران جانے والوں کی تعداد بیس لاکھ کے قریب تھی۔ ایرانی حکومت نے اس سلسلے میں ایسا انتظام و انصرام کیا کہ وہاں ان کی آبادی اور مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور وہاں کوئی بدنظمی اور بدانتظامی اس ضمن میں پیش نہیں آئی۔ میں نے اپنے کالموں میں مشورہ دیا کہ ایران کو مثال بنا کر اسی طرز انتظام کو اپنا لیا جائے تو پاکستان میں بھی کوئی ناخوش گوار صورتحال پیدا نہیں ہو گی لیکن کسی نے ایک نہ سنی اور افغان مہاجرین پورے پاکستان میں پھیل گئے جس کی برائیوں کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ سانپ نکل گیا ہے اور ہم لکیر پیٹ رہے ہیں۔
یہ سب جانتے ہیں کہ القاعدہ نے سعودی عرب میں جنم لیا تھا لیکن سعودی حکومت کے اس وقت کے وزیر داخلہ شہزادہ نائف نے ایسا سیکورٹی نظام وضع کیا تھا کہ وہ القاعدہ کو بڑی حد تک غیر موٴثر کرنے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہو گئے۔ بلکہ مجھے یاد ہے جب سعودی عرب کے وزیر داخلہ ایک دورے پر پاکستان آئے تھے تو انہوں نے پاکستان کو پیشکش کی تھی کہ وہ سعودی عرب میں نافذ سیکورٹی نظام کو پاکستان میں نافذ کر لیں اور میں نے بھی ایک کالم اس سلسلے میں لکھا تھا لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ اب بھی وقت ہے کہ اس نظام سے استفادہ کیا جائے۔ جس طرح افغانستان سے پاکستان میں آ کر ازبک دہشت گردوں نے پشاور میں ایئرپورٹ پر حملہ کیا، اگر سعودی عرب والا سیکورٹی نظام پاکستان میں ہوتا تو یہ کسی طور ممکن نہیں تھا۔
”جس طرح پولیو ٹیموں پر فائرنگ کر کے 5/خواتین کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اس سے ساری دنیا میں پاکستان بدنام ہو گا اور نہ صرف پاکستان بدنام ہو گا بلکہ اس سے دین اسلام پر بھی تنقید ہو گی اور ہو رہی ہے۔ اسلام رواداری اور امن کا دین ہے۔ نہ وہ خواتین کی تعلیم کے خلاف ہے اور نہ وہ خواتین کے کام کرنے کے خلاف ہے۔ اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے وہ ملازمتیں بھی کرسکتی ہیں اور تعلیم بھی حاصل کر سکتی ہیں۔
حکومت کو جدید بنیادوں پر سیکورٹی نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کا اسلام سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک MindSet ہے اور اس نے افغانستان پر روس کی یلغار کے بعد جنم لیا ہے اور یہ جدید بنیادوں پر امریکا اور نیٹو افواج کی افغانستان میں مداخلت کے بعد تشویشناک صورتحال میں ڈھل گیا ہے۔
تازہ ترین