• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم اور آرمی چیف کے بیانات: مستقبل کا بیانیہ

وزیراعظم عمران خان نے ہفتہ کے روز لاہور میں حکومت پنجاب کی سو روزہ کارکردگی کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ اسمبلی میں روز ڈرامہ ہو رہا ہے، اپوزیشن کہتی ہے کہ ہم سے انتقام لے رہے ہیں، ہم نے تو کوئی کیس نہیں بنایا یہ سب پرانے دور کے مقدمات ہیں۔ میں نے پارٹی لیڈر شپ سے کہا ہے کہ اپوزیشن کی ہر بات مان لو لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ احتساب سے پیچھے ہٹ جائیں، کرپٹ لوگوں کو جیل میں نہ ڈالا تو ملک کا مستقبل خطرے میں پڑ جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج اب کسی اور کی جنگ نہیں لڑے گی۔ قبل ازیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیول اکیڈمی کراچی میں پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب میں کہا کہ ہمیں یا ہماری آزادی کو کوئی تھریٹ نہیں کر سکتا، ملک میں موجود امن کی اپنے خون سے قیمت چکائی، دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنا ابھی باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی حکومت نے خلوص کے ساتھ بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، امن سب کے مفاد میں ہے۔ جنگیں موت اور تباہی لے کر آتی ہیں، تنازعات ہمیشہ مذاکرات کی میز پر حل ہوتے ہیں اور مذاکرات ہی مسائل کا واحد راستہ ہیں، وقت آ گیا ہے کہ ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے بھوک، بیماری اور ناخواندگی سے لڑا جائے۔ وزیراعظم پاکستان اور مسلح افواج کے سالار اعلیٰ کے مذکورہ بیانات اس امر کی بین دلیل ہیں کہ انہیں نہ صرف حالات کی نزاکتوں اور تقاضوں کا مکمل ادراک ہے بلکہ وہ اس ضمن میں عملی اقدامات کے بھی متمنی ہیں۔ جہاں تک ملک کی سیاسی صورتحال کا تعلق ہے وہ سب پر عیاں ہے، نجانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ سیاست تو ہے ہی حکمت و تدبر سے ناممکن کو ممکن بنانے کا عمل اور اس راہ کو چھوڑنا انتشار کا باعث بنا کرتا ہے۔ بلاشبہ قیام امن، دیانت داری اور سیاسی استحکام ہی قوموں کو منزلِ مراد تک پہنچانے کا واحد راستہ ہے۔ قومی ارتقا میں شفاف اور غیر جانبدار احتساب ناگزیر ہے، ہاں اس عمل پر اعتراضات ہوں تو انہیں بہرحال دور کیا جانا چاہئے جس کیلئے پارلیمان کا فورم بھی موجود ہے اور عدلیہ بھی، ان اداروں سے رجوع کیے بغیر کسی اور راہ پر چل نکلنا ملک و قوم کو ابتلا میں ڈال سکتا ہے۔ یوں بھی وزیراعظم کے اس بیان کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ یہ تمام مقدمات پرانے دور کے ہیں۔ اس حوالے سے پہلے بھی مشورہ دیا جا چکا ہے کہ فریقین اعتدال کی راہ اختیار کریں ورنہ حالات خرابیٔ بسیار کی طرف جانے کا قوی اندیشہ ہے۔ وطنِ عزیز جن حالات اور بحرانوں کا شکار ہے ان میں کسی بھی نوع کی محاذ آرائی حب الوطنی کے منافی کہلائے گی۔ عوام کی حالت زار بھی سب کے سامنے ہے اور اندرونی و بیرونی چیلنجز بھی۔ دہشت گردی کی مکمل بیخ کنی بھی باقی ہے تو سرحدوں پر بھی خدشات موجود ہیں۔ دریں صورت تو سب کو ملک و قوم کی فکر ہونا چاہئے نہ کہ سیاسی مقاصد کو پیش نظر رکھا جائے لہٰذا سب مل کر ملک کی ترجیحات و ضروریات کا تعین کریں تاکہ قومی بیانیہ مضبوط تر ہو۔ پاکستان کی اوّلین ترجیح بلاشبہ ملکی سالمیت اور امن و امان ہے اور بنیادی ضرورت سیاسی و اقتصادی استحکام۔ ہمیں مل کر اس ضمن میں پیش رفت کی ضرورت ہے۔ آرمی چیف کا بیان بلاشبہ حوصلہ افزا ہے اور مبنی برحقیقت بھی، جس پر نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کو بھی غور کرنا چاہئے کہ دنیا کے گنجان ترین خطے میں غربت، بیماری، افلاس اور ناخواندگی بھی سب سے زیادہ ہے۔ بفضلِ خدا پاک فوج نے ثابت کر دیا کہ وہ کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ خطے میں امن و آشتی ناگزیر ہے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کے بیانات دراصل وطن عزیز کی مستقبل کی حکمت عملی قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ سیاسی طور پر کرپشن کے سوا ہر بات پر اپوزیشن سے مفاہمت، خطے میں امن اور پرائی لڑائی سے گریز۔ یہ ایک احسن حکمت عملی ہے جس پر سب کو متفق و متحد ہو کر ایک قوم کا ثبوت دینا چاہئے کہ یہ ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے۔

تازہ ترین