• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ایک ایسا زرخیز زرعی خطہ ہے، جو اپنی ضرورت کی ہر چیز خود پیدا کرتا ہے۔ گندم، چاول، چینی، سبزیوں اور پھلوں سمیت ایسی کونسی نعمت ہے جو اِس خطۂ ارض میں کاشت نہیں کی جاتی۔ آلو بھی اُن میں سے ایک ہےجو مقامی ضرورت پوری کرنے کے بعد دیگر ممالک کو برآمد بھی کیا جاتا ہے۔ پیداوار کے لحاظ سے آلو پاکستان کی چوتھی بڑی فصل بن چکی ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت آلو کی فصل 7500ایکڑ رقبے پر کاشت ہوتی تھی جبکہ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اب 4لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر آلو کی فصل کاشت کی جاتی ہے، جس کی پیداوار کا حجم چالیس لاکھ ٹن سے زیادہ ہے۔ آلو، جس کی فی ایکڑ زیادہ پیداوار، زیادہ شرح منافع اور سازگار موسمی حالات نے کاشتکاروں کو اس کی کاشت پر مائل کیا تھا، کا بھائو منڈیوں میں کم ترین سطح تک گر گیا ہے۔ پنجاب میں آلو کی سب سے بڑی منڈی اوکاڑہ میں گزشتہ روز آلو کی 120کلو کی بوری 900سے 1100روپے تک میں فروخت ہوئی، جس میں کسان کی لوڈنگ، اَن لوڈنگ، ٹرانسپورٹ، کمیشن اور بوری سمیت 300کی لاگت بھی شامل ہے۔ جس کی وجہ سے منڈی میں آلو کی قیمت ساڑھے 6روپے فی کلو پر پہنچنے سے بیچارے کاشتکاروں کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ گراں قیمت کھاد، بیج، کیڑے مار ادویات اور مہنگے ڈیزل اور پٹرول کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ تلے دبے کاشتکار پہلے ہی زبوں حالی کا شکار تھے کہ رہی سہی کسر ناقص حکومتی منصوبہ بندی نے پوری کر دی جس سے نہ صرف حکومت کی کسان دوستی کے سب دعوے دھرے رہ گئے بلکہ پہلے سے نظر انداز زراعت کی صنعت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت ہمسایہ ممالک سے سبزی اور پھلوں کی درآمد بند کرے اور مقامی کاشتکاروں کو اچھے نرخ دے۔ چینی کی طرح آلو کی ایکسپورٹ کیلئے بھی فریٹ سبسڈی اور ٹیکسوں میں ریلیف دے تاکہ تباہ حال کسانوں کی کچھ تو دلجوئی ہو سکے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین