• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انہوں نے انکار کیا تو ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ تمہارے ساتھ تو اب جو ہو گا سو ہو گا لیکن خدارا کہیں بھی میرا نام نہ لینا کہ میں شکار کے انتظامات کا حکم دیتا تھا۔اگلے دن تمام انتظامی افسران بشمول ڈی سی ،اے سی ،ایس پی اور تحصیلدار وغیرہ کے تبادلے کر دیئے گئے۔اب ابا جی کے لئے انکوائریوں اور مصیبتوں کا عذاب شروع ہوا۔ جھوٹے مقدمات بنائے گئے ، نئے اسسٹنٹ کمشنر اے کے خالد نے ان کی لائسنسی بندوق ضبط کی اور اس ”مقدمے“ میں ان کی عبوری ضمانت دینے والے چوہدری جہان خان ایڈوکیٹ نے جب اے سی سے پوچھا کہ مچلکے میں کون سا جرم لکھنا ہے تو صاحب بہادر نے کہا کہ آپ مچلکہ فِل کر دیں، میں کوئی جرم خود ہی لکھ دوں گا۔ چکوال کے سردار اشرف خان مرحوم اس وقت پارلیمانی سیکرٹری تھے لیکن ہمارے سردار ایسے موقعوں پر ”اللہ خیر کریسی“ تک ہی محدود رہتے ہیں البتہ راجہ محمد افضل آف کالس کی سفارشوں پر اے سی نے بتایا کہ مجھے اوپر سے حکم ہے کہ اس پٹواری کو کسی نہ کسی مقدمے میں لمبی قید کی سزا سناؤں تاہم مجھ سے جتنا ہو سکا مقدمات کو لمبا کرتا رہوں گا۔
اس واقعے کے دوسرے دن امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی صاحب نے اپنا معتمد خاص (امیر جماعت اسلامی لائلپور ) ہمارے والد صاحب کے پاس خان پور بھیجا ۔انہوں نے کہا کہ مولانا نے آپ کا فوٹو منگوایا ہے اورجابر حکمران کیخلاف کلمہ حق بلند کرنے پر آپ کو خراج ِ تحسین پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ آپ قدم بڑھائیں جماعت کے تمام وسائل آپ کے لئے حاضر ہیں۔ابا جی نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ ایک جذباتی قدم تھا۔میں معمولی سرکاری ملازم ہوں اور میرا مزید” قدم بڑھانے“ کا ارادہ نہیں۔ مولانا مودودی نے بعد میں ابا جی کو تفصیلی خط لکھا اور ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔یہ خط ایجنسیوں نے پکڑ لیا ۔انکوائریوں کا رخ اس طرف مڑ گیا تاہم ان کا کسی بھی جماعت وغیرہ سے تعلق ثابت نہ ہو سکا ۔بات اخباروں میں بھی پھیلنی شروع ہو گئی ،شنید ہے کہ جب انکوائری رپورٹس صدر ایوب خان تک پہنچیں تو انہوں نے مزید رسوائی کے ڈر سے پٹواری کو نہ چھیڑنے اور معاملے پر مٹی ڈالنے کا حکم دیا اور یوں والد صاحب کی گلو خلاصی ہوئی ۔ایوب خان اس کے بعد دو دفعہ مزید شکار کے لئے چکوال آئے مگر اس طرح کہ پٹواریوں سے خرچہ تو نہ لیا گیا البتہ گورنر امیر محمد خان کا حکم آ گیا کہ خبردار !پٹواری خان پور شکار گاہ کی طرف نہ جانے پائے سو ایس پی سیکورٹی نے ان کو دونوں دفعہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند کر دیا ۔پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب عبدالکریم کنڈی اس وقت چکوال میں سول جج تعینات تھے۔انہوں نے ناطق زیدی صاحب ایڈوکیٹ کے ذریعے اباجی سے ملاقات کی ۔ان کی جرأت پر شاباش دی اور پیشکش کی کہ اگر آپ چاہیں تو صدر کے خلاف میری عدالت میں خرچے کا دعویٰ کردیں اور ثبوت پیش کریں تو میں صدر کے خلاف ڈگری جاری کردوں گا۔ والد صاحب نے ان کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے مجھے ناجائز طور پر مطعون کیا اس لئے میں نے کھری کھری سنا دیں۔ میں ”اکیلا “آدمی ہوں مزید بات بڑھانا میرے بس کی بات نہیں۔سابق گورنر پنجاب جنرل عتیق الرحمن اس وقت راولپنڈی میں لیفٹیننٹ جنرل تعینات تھے۔وہ والد صاحب کے مہربان تھے۔ 1955-56ء میں جب وہ کروڑ لعل عیسن(لیہ) میں پٹواری تعینات تھے تو عتیق الرحمن وہاں اپنی زمینوں کے مسائل کے سلسلے میں ان کے پاس جاتے تھے۔اکثر ان کی بیگم مسز نسیم عتیق الرحمن (دختر بیگم شاہنوازتحریک پاکستان فیم) بھی جاتی تھیں۔ اس وقت سے ان کے ساتھ واسطہ تھا۔ اس واقعے کے بعد والد صاحب کسی کام کے سلسلے میں ان کے گھر راولپنڈی گئے تو بیگم صاحبہ نے دہائی دی کہ تمہارے خلاف اعلیٰ ترین سطح پر انکوائری ہو رہی ہے۔تم ہمارے ساتھ اپنا تعلق ختم سمجھو ورنہ ہمیں بھی لے ڈوبو گے۔بریگیڈیئر مظفر آف جھاٹلہ کچھ عرصے بعد والد صاحب کواتفاقاً ملے تو پوچھا ”جوان تم نے ابھی تک کوئی قتل نہیں کیا ؟“ انہوں نے کہا نہیں جناب ! میں کوئی پاگل نہیں ہوں۔ بریگیڈیئر صاحب نے کہا ”پاگل تو نہیں ہو لیکن ہمارے لئے تو تم نے زلزلہ برپا کر دیا تھا۔تمہیں کیا خبر کہ بات کہاں تک گئی اور کس کس نے بھگتی؟“
ماضی کا یہ قصہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ماضی ہو یا حال، ارباب ِ اختیار و اقتدار کی رشوت اور بدعنوانی کے خلاف کھوکھلی بڑھکوں کی حیثیت محض لطیفوں سے زیادہ نہیں۔ یہ لوگ جتنے بھی کرپشن ختم کرنے کے دعوے کرتے ہیں ان کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی لغویات کہا جا سکتا ہے ۔کل بھی ان کا یہی وتیرہ تھا،آج بھی ان کا یہی چلن ہے۔ پٹواری ہی ان کے جلسوں اور شکاروں کا انتظام کرتے ہیں اور پٹواری ہی ان کے جلسوں کے لیء لوگ اور شکار گاہوں کے لئے تیتر اکٹھے کرتے ہیں۔ یہ لوگ پٹواریوں کا حرام مال کھاتے ہیں اور پھر ڈھٹائی سے رشوت کو جڑ سے اکھاڑنے کی باتیں کرتے ہیں۔ پٹواریوں سے اوپر کوئی نہیں دیکھتا جبکہ خود پیٹ کے بل چاند پر پہنچ گئے ہیں۔ ملک کو بیچ کر کھا جائیں گے تو ڈکار تک نہیں مارتے اور کرپشن ختم کرنے پر آتے ہیں تو کلرکوں اور پٹواریوں کی۔کلرک کی رشوت والا پانچ سو کا نوٹ تو اینٹی کرپشن کا انسپکٹر بآسانی پکڑ لیتا ہے مگر ان کو ثبوت نہیں ملتا تو چینی بلیک کرنے والوں کا، سراغ نہیں ملتا تو آٹا اسمگل کرنے والوں کا،ثابت نہیں ہوتے تو موٹر وے کا کمیشن اور منی لانڈرنگ کے کیس۔انہیں سوئس بنکوں کے اکاؤنٹس کا بھی سراغ نہیں ملتا اور سرے محل کا بھی ۔یہ کوآپریٹو اسکینڈل سے بھی بے خبر ہیں اور قرضے معاف کرانے والوں سے بھی۔ یہ کمیشن مافیا کے سامنے بھی بے بس ہیں اورجعلی ادویات بنانے والوں کے آگے بھی لاچار۔ یہ ٹارگٹ کلرز کے سرپرستوں سے بھی لاعلم ہیں اور خودکش بمباروں کی کمین گاہیں بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہیں۔
NROکے تعفن سے اٹھنے والے کھربوں کو زمین نگل گئی اور ”قرض اتارو، ملک سنوارو“ جیسی مہمات کے بطن سے جنم لینے والے اربوں کو بھی آسماں کھا گیا۔ یہ نچلی سطح کی کرپشن مسخروں کی طرح اچھل اچھل کر ختم کرنے کی بڑھکیں مارتے ہیں لیکن انہیں کچھ خبر نہیں کہ جہاد افغانستان کے ڈالر اور آئی جے آئی بنوانے کے کروڑوں کہاں غائب ہوئے اور رینٹل پاور اور اسٹیل ملز جیسے اسکینڈلز کی رقوم کس نے ہضم کیں۔ اپنی بارہ ارب روپے یومیہ کی کرپشن اور ٹیکس چوری کی رپورٹوں پر ان کا استحقاق اور عزت نفس مجروح ہوتی ہے مگر پٹواریوں سے حرام کھانے کے بعد ان کی بدعنوانیوں پر خطاب کرتے ہوئے اربابِ اختیار کی بریکیں فیل ہو جاتی ہیں … ہمارے والد ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گاؤں میں مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ تھوڑی سی جدی بارانی زمین اور سفید پوشی کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں مگر پچھتاوا بھی کوئی نہیں۔ دکھ ہے تو حبیب جالب# والا کہ
وہی اہل وفا کی صورت حال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
تازہ ترین