• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد کی احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کے دائر کردہ ریفرنسز کے پیر کو سنائے جانے والے فیصلوں میں سابق حکمران جماعت کے قائدین اور کارکنوں کیلئے اطمینان اور اضطراب کے دونوں پیغامات موجود ہیں۔ احتساب جج محمد ارشد ملک نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو ثبوت نہ ہونے پر بری کردیا ہے جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سات سال قید اور 1.5ارب روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔ فاضل جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس کیس میں نواز شریف منی ٹریل کی فراہمی میں ناکام رہے۔ ان کے خلاف کافی ٹھوس ثبوت موجود ہیں اس لئے انہیں قید اور جرمانے کی سزا دی جا رہی ہے عدالت نے نیب کو ان کی گرفتاری کی اجازت دے دی جس پر انہیں عدالت ہی سے گرفتار کر لیا گیا۔فیصلہ پیر کی صبح 10 بجے سنائے جانے کی توقع تھی جسے پہلے بارہ بجے اور پھردو بجے تک ملتوی کیا گیا اور بالآخر تقریباً پونے تین بجے سنا دیا گیا۔ نواز شریف کی عدالت آمد کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس اوربعض دوسرے مقامات پر مسلم لیگی کارکن بڑی تعداد میں جمع ہو گئے اور زوردار نعرے بازی کی۔ جی الیون سگنل پر پولیس نے کارکنوں پر آنسو گیس کی شیلنگ کی تاہم کوئی نقصان نہیں ہوا۔ نواز شریف کے وکلا نے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب جج کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کا فیصلہ کیا ہے جبکہ نیب فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کو چیلنج کرے گا گویا ان ریفرنسز پر قانونی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ میاں نواز شریف کو اپنی35سالہ سیاسی زندگی میں مشکل ترین سیاسی اور قانونی جنگ کا سامنا ہے۔ وہ تین بار ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے مگر ایک بار بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔ دوبار اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔ تیسری بار وزارت عظمیٰ سے ان کی سبکدوشی پانامہ گیٹ سیکنڈل کا شاخسانہ تھی۔ ستمبر2017میں نیب نے ان کے خلاف تین ریفرنسز دائر کئے۔ ایک ایون فیلڈ پراپرٹیز، دوسرا العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ جبکہ تیسرا فلیگ شپ انوسٹمنٹ سے متعلق تھا۔ تینوں کیسوں کی سماعت پندرہ ماہ تک ہوئی پہلے کیس میں انہیں سزائے قید سنائی گئی جو بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دی اور انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نیب کی اپیل تاحال زیرسماعت ہے۔ العزیزیہ اسٹیل اور فلیگ شپ کیس احتساب جج محمد ارشد ملک کی عدالت میں چلایا گیا۔فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر مسلم لیگ ن کے کارکنوں اورحامیوں کی جانب سے کسی ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کیلئے احتساب عدالت کیلئے خصوصی سیکورٹی پلان ترتیب دیا گیا اور پولیس کی معاونت کیلئے رینجرز کے دستے عدالت کے اندر اور باہر تعینات کر دیئے گئے۔ نواز شریف کی گرفتاری کے روز ہی منی لانڈرنگ کے ایک اور کیس میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ عدالت عظمیٰ نے انہیں نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا ۔ یہ ملک کی سیاسی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے کہ پارلیمنٹ میں دوسری اور تیسری پوزیشن رکھنے والی پارٹیوں کے قائدین احتساب کی زد میں ہیںبظاہر یہ حکمران تحریک انصاف کیلئے خوشی کا موقع ہے اور اس کے رہنما اس کا کھلے بندوں اظہار بھی کررہے ہیں ان کا خیال ہے کہ ان رہنمائوں کے بعد ان کی پارٹیاں قومی منظر پر اپنا مقام برقرار نہیں رکھ سکیں گی اور وہ تنہا ملک پر حکمرانی کر سکیں گے۔ یہ سوچ کثیر الجماعتی جمہوریت کے مفاد میں نہیںا س سے ملک میں سیاست کا توازن بگڑ جائے گا ون پارٹی رول کسی بھی ملک میں عوام کی حکمرانی کے تصور کے خلاف ہے اس سے سیاسی خلا پیدا ہو جائے گا جسے پر کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی آگے آئے گا جس سے ملک میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے حکمران پارٹی کو چاہئے کہ جو لوگ قابل مواخذہ ہیں انہیں احتساب کے عمل سے ضرور گزارا جائے مگر اپوزیشن کو پنپنے کا موقع بھی دیا جائے اور قوم کو درپیش چیلنجز کا مل جل کر مقابلہ کرنے کے لئے مفاہمت کی فضا کو فروغ دیا جائے۔

تازہ ترین