• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سید مجتبیٰ احمد

نومبر1946کی ایک شام تھی جب کہ دہلی کی مسموم فضا ایک خوشگوار خشکی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔شام کے پانچ بجے مجھے قائداعظم سے ملنا تھا،ایشیا کی عظیم المرتبت شخصیت سے شرف ِ ملاقات۔1946ءکے آخر میں جب نہر ولیاقت وزارت مرکز میں قائم ہوگئی تھی،صوبہ بہارفساد اور غارتگری کے شعلوںمیں لپٹا ہواتھا۔بندوقیں اور تلواریں خون کا انذارانہ وصول کررہی تھیں۔ان لرزہ خیز خطرات کے پس منظر میں مسلم قوم کے سامنے اپنی سیاسی ، سماجی اور ثقافتی روایات برقرار رکھنے کاسوال تھا ۔تیس ہزار اشخاص موت کے گھاٹ اتارے جا چکے تھےاور اس سے کہیںزیادہ بے خانماںہوگئے تھے۔مستقبل بڑامایوس کن نظر آرہاتھا۔امدادکی توقع کیسے ہوتی جب کہ بیرونی دنیا کے ساتھ مواصلات کے تمام سلسلے منقطع ہوگئے تھے۔حکومت نے خطوط اور ٹیلیگرام پر بڑی سخت پابندی لگارکھی تھی۔ان الم انگیز حالات میں مجھے صوبائی مسلم لیگ کی طرف سے قائداعظم اور دیگر قائدین مسلم لیگ سے نامہ وپیام کے لیے مقرر کیاگیاتھا ۔میں نے پٹنہ اور دہلی کے درمیان تین خفیہ سفرکیے۔شام پانچ بجے میں نمبر 10اور نگ زیب روٹ پر پہنچا ۔کوٹھی کے سامنے لگے ہوئے شامیانے کے اندر ایک ناقابل بیان دماغی الجھن میں گرفتار ٹہل رہاتھا کہ مجھے قائداعظم کے سیکریٹری نے ملاقات کے لیے بلایا۔ایک سراسیمگی اور وار فتگی کے عالم میں مَیںاس کے پیچھے ہولیا۔قائداعظم اپنے پائیں باغ میں بیدکی کرسی پر بیٹھے تھے، دوسری کرسی پر میں بیٹھ گیا۔ان کے ہاتھ میں وہ خط تھا، جو میں اپنے ساتھ پٹنہ سے لایا تھا اور سیکریٹری کے ذریعے انہیں پہلے ہی بھجواچکاتھا۔رسمی گفتگو کے بعد انہوں نے دریافت کیا ’’تم آج ہی بہار سے آئے ہو؟‘‘جی ہاں ،پٹنہ سے ،میری زبان سے نکلا۔میںنے غور سے دیکھا تو ان کی دیدہ زیب شخصیت گھنے خوبصورت باغ کے پس منظر میں بہت دلفریب معلوم ہورہی تھے۔

’’میں بغوار حالات کا مطالعہ کررہاہوں‘‘قائداعظم نے لمحے بھر کے توقف کے بعد کہنا شروع کیا۔’’فساد کے شعلے جنوبی بہار کے چارضلعوںمیں بھڑک رہے ہیں۔تمہاری روانگی کے وقت کیا حالات تھے‘‘

میری زبان سے وہ تمام الفاظ ادا ہو رہے تھے، جو اپنے صوبے کے قائدین نے مجھے قائداعظم کی خدمت میں عرض کرنے کے لیےیاد کرائے تھے۔’’جی ہاں!قرب وجوارسے مسلم آبادی کا خاتمہ ہوچکا ہے۔قتل وغارت گری کادورہ ہے۔کوئی مناسب صورت اختیارنہ کی گئی تو مجھے یقین ہے کہ ایک مسلمان بھی نہ بچ سکے گا۔مسلمانوں کی ذہنیت پست ہوئی اور مسلم لیگ سے ان کی مخالفت بڑھتی جارہی ہے۔‘‘

میری تقریرزوروں پر جاری تھی کہ انہوں نے میری بات کاٹ دی۔’’غلطی تمہاری ہے مسلم لیگ کسی فرد کانام نہیں۔‘‘ان کا چہرہ سرخ ہورہا تھا اور مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ غصے کے عالم میں کوئی عظیم المرتبت شخصیت کیسی لگتی ہے۔’’تم جانتے ہوئے تمہارے لیڈروںنے مجھے اپنے خطوط میں کیا لکھاہے؟وہ مجھے الزام دےرہے ہیں کہ اکثریت کے صوبوں کی خاطر میں نے اقلیت کو نظر انداز کیا ہے۔شاید وہ بھول گئے ہیں، مَیں بھی اقلیت کے صوبے کار ہنے والا ہوں ۔کل تک جولوگ مسلم زندہ باد کے نعرے بلند کرتے تھے، آج وہ بہار میں لیگ کو ختم کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔کیسے ہیں یہ لوگ ‘‘قائداعظم کی آواز بلند ہوگئی تھی۔’’میں کبھی یہ یقین نہیں کرسکتا کہ یہ ہمارے عوام کی آواز ہے۔‘‘

قائداعظم نے میری ہمت بلند کردتھی ۔میں نے سوال کیا!لیکن آپ ان لوگوں سے کیسے اُمید رکھ سکتے ہیں جن کی زندگی کے تمام سہارے ٹوٹ چکے ہیں،موت کی کشمکش میں زندگی کے راستے کہاں کھائی دیتے ہیں؟

میری اُمید کے خلاف قائداعظم کا جواب بھی غیر صوبائی اور انتہائی منطقی تھا۔

’’میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں۔ان واقعات سے میرے دل پر بھی چوٹ لگتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کل جو کچھ بھی پیش آرہا ہے، وہ سب اپنے اپنے کیے کی سزا ہے۔ہم میں تنظیم کا فقدان تھا اسی لیے ہمیں نقصان اُٹھانا پڑا۔‘‘

’’تو کیا اس طرح کے اظہار سے فسطائی قوم پر ستوں کی ہمتیں بلند نہیں ہوجائیں گی اور وہ دوسرے صوبوں میں اس قسم کے واقعات نہ دُہرانے لگیں گے؟‘‘

وہ مسکرائے لیکن فوراً! ہی جواب دیا۔’’نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ ان کی تمام لوٹ مار کی وارداتیں درحقیقت ان کی شکست کا اعتراف ہیں۔اس کے بر خلاف ہماری راہ کٹھن ہے لیکن کامیابی یقینی۔‘‘

میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہورہاتھا کہ جیسے ان کی شخصیت فولاد میں ڈھلی ہوئی ہے۔

میں نے ایک اورسوال کیا’’لیکن مسلم لیگ جب عارضی حکومت میں شامل ہوچکی ہے،تو آپ وائسرائے کواس کے اختیارِخصوصی کے استعمال پر زوردے سکتے ہیں۔‘‘

قائداعظم اپنی کرسی پر پیچھے کی طرف جھک گئے اور دوسر اسگریٹ سلگاتے ہوئے کہا’’تم انسانیت کا نام لے کر برف کے تودوں کو پھونکوں سے پگھلانا چاہتے ہو؟یہ تمہاری حماقت ہے۔‘‘ پھر وہ کرسی پر سیدھے بیٹھ گئے اور کہنے لگے‘‘۔ان تمام خوش فہمیوں کودور کردو۔انگریز نہ تمہارا دوست تھا اور نہ ہوسکتاہے۔‘‘

میرے اس سوال پر کہ اقلیتی صوبے کے مسلمانوں کی ہمدردی میں اکثریت کے صوبوں والے کیوں انتقام نہیں لیتے ۔قائداعظم بھپر گئے۔کہا،’’تم گاندھی کا یہ نظر یہ درست ثابت کرنا چاہتے ہوکہ بہار کا حادثہ’’ نواکھالی‘‘ کے واقعات کا لازمی ردعمل ہے؟اس سے کوئی مفید نتائج نہیں نکال سکتے ،قوم پرستوں کے مسلسل پروپیگنڈے کے آگے تمہاری ایک نہ چلے گی۔‘‘

مَیں لاجواب ہوگیا۔میرے دل میں احساس شکست قومی تر ہوتا چلاگیا۔میں نے اسے دور کرنے کے لیے آخری سوال کیا’’تو آپ کےخیال میں اس قسم کے حادثات سے مطالبات میں کمی نہیں ہوگی؟‘‘’’نہیں ہرگز نہیں۔انہوں نے میز پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا‘‘

یہی میرا مقصد زندگی اور خوابوں کی تعبیر ہے جس کے لیے میں نے اپنی زندگی وقف کردی ہے۔دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اپنے مقصد سے نہیں ہٹا سکتی اور اب تو خدا کاشکر ہے کہ اس میں کافی استحکام پیدا ہوچلا ہے۔ان کی آنکھیں ایک لاہوتی اثر کےتحت چمک رہی تھیں۔’’کیا ہم نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا ہے!مسلمانوں کو اپنی تاریخ کے ہر دور میں کتنے روح فر سا اور نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ملتِ بیضا چراغ ہر آندھی کی زد میں فروزاں ہی رہا۔‘‘انہوں نے پھر سگریٹ سلگایا’’میرا دل بہار کے لیے خود آنسو بہار رہاہے۔میںحالات بدلنے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ کُل ہند مسلم لیگ سے وابستہ رہ کر کام کرنا چاہیے ۔وہ اُ ٹھ کھڑے ہوئے اور میرے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ ملکوتی پیغام دیا جواب تک میرے ذہن کی پہنائیوں میں گونج رہا ہے۔’’آگے بڑھو! مشکلات اور خطرات بےشک حائل ہیں ،انہیں کبھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے ۔لیکن خود اعتماد ی سے ان پر قابوپائو خواہ کتنے نقصانات اُٹھانے پڑیں!ہمارا کام عمل کرنا ہے ثمرخدا کی طرف سے ملے گا‘‘

میں کوٹھی سے باہر نکل آیا۔میرے دل ودماغ میں یہ جملہ دیر تک گونجتا رہا۔’’اگر تمہاری خودی بیدار ہے تو تمہیں ایک گھنٹے میں وہ کچھ حاصل ہوسکتا ہے ،جودرجنوں انسانوں کی مجموعی زندگی سے بھی حاصل نہیں ہوتا ۔‘‘مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے صدیوں کا پہیہ میرے اوپر سے گزر چکا ہے۔

تازہ ترین